کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 614
علوم القراءات پروفیسر اَحمد یار ٭
کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط
علامات ِ ضبط کی ابتداء، ارتقاء اور ان کے
زمانی اور مکانی ممیزات کا اجمالی جائزہ
پروفیسر احمد یار رحمہ اللہ کا یہ مضمون اُن کی کتاب ’قرآن و سنت ....چند مباحث ‘سے کچھ حذف و اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے، جس میں اُنہوں نے حوالہ جات کی وضاحت کے لیے آخر میں ’’مفتاح المراجع‘‘بھی دیئے ہیں ۔ جن میں مقالے میں پیش کردہ حوالوں میں روایتی طریقے پر ہر ایک حوالے کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں ، لیکن ہم ’مفتاح المراجع‘ کو اختصار کی غرض سے یہاں ذکر نہیں کررہے۔ جو حضرات حوالوں سے متعلق وضاحت کے طالب ہوں وہ پروفیسر صاحب مرحوم کی اصل کتاب کی طرف مراجعت فرمائیں ۔ [اِدارہ]
۱۔ قرآن کریم کی درست تلاو ت کے لیے اس کی درست کتابت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اسی بناء پر اور صحت قراءت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کتابت مصاحف میں چند ایک اُمور کا التزام کیا جاتاہے، مثلاً قواعد ِ رسم و ضبط کی پابندی، علامات ِوقف ووصل کی درجہ بندی کی توضیح،آیات و فواصل(شمارِ آیات)کی تعیین اور سجدات ِ تلاوت کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ مزید برآں قاری کی سہولت کے لیے سورتوں کے نام اور ہر سورت کے نام کے ساتھ کچھ تعارفی معلومات(مثلاً مکی ومدنی کا بیان)،مختلف تقسیمات(مثلاً اجزاء، احزاب اور رکوعات) کی تصریحات اور ہر صفحے پرحوالہ کی آسانی کے لیے بعض علامتی اِشارات بھی درج کئے جاتے ہیں ۔
۲۔ تاہم مذکورہ بالااُمور میں سے بیشترکی حیثیت محض اِضافی معلومات کی ہے۔ دراصل صحت کتابت کا معیار اور اس کی بنیاد تو علم الرسم ہے اور صحت قراءت کا دارومدار بڑی حد تک علم ِضبط پر ہے۔
۳۔ اگر علم الرسم کا موضوع قرآن کا ہجاء اور املاء ہے تو علم ِضبط کاموضوع وہ علامات و نشانات(مثل حرکات، سکون، مدوشد وغیرہ) ہیں [الطرازورق۲/ب]جو کلمات ِ قرآن کے درست تلفظ اور ان کی نطقی کیفیات کے تحفظ میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ’مدد‘ والی بات ہم نے اس لیے کی ہے کہ قرآن کریم کی صحیح قراءت اور اس کے کلمات و اَصوات کے درست تلفظ کی تعلیم کا اَصل طریقہ تو تلقّی اور سماع کا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک معمول بہ چلا آتا ہے۔ تنہاعلاماتِ ضبط یعنی علم الضبط استاد یا ’شیخ‘ کا بدل کبھی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ضبط کی بعض خاص صورتوں میں علامات کی وضاحت کرنے کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ صحیح تلفظ استاذ(شیخ) سے شفوی طور پرسیکھا جائے۔ تاہم قراءت قرآن کی تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعد روزانہ تلاوت قرآن کے لیے کسی صحیح
[1] سابق پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی