کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 613
ہیں ۔ غیر مسلم اس کاکیوں اعتبار کریں اور خارجی ثبوت تاریخ ہی سے مل سکتے ہیں ، جس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ ظنی چیز ہے ۔پھر ایک ایسی چیز جو خود ظنی ہے دوسری کو یقینی کیونکر ثابت کر سکتی ہے؟ تو اس کا جواب آپ نے یہی دیا کہ ’’’ایمان بذات خود سچ اور سائنٹیفک چیز ہے اور پرانی یاتاریخی شہادتوں میں سے جو اس قر آن کے مطابق ہوگی اسے ہم سچا قرار دیں گے او روہ قرآن کی تائید میں پیش ہو کر خود اپنی سچائی کا سر ٹفیکیٹ حاصل کرے گا۔‘‘ اب بتلائیے کیا اس جواب سے اس مستفسر کی تسلی ہوگئی ہوگی؟ [تفصیلات کے لئے دیکھئے قرآنی فیصلے ،عنوان حفاظت قرآن کریم]
حفاظت قرآن کے خارجی ثبوت
اس مسئلہ میں پرویز صاحب نے جس بے بسی کا اظہار فرمایا ہے وہ ظاہر ہے اگر آپ اپنے ایمان کو سچا اور سائنٹیفک سمجھتے ہیں تواس لحاظ سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کو سچا اور سائنٹیفک سمجھے اور ہر اس بات کا انکار کر دے جو اس کے ایمان کے خلاف ہو ۔ پرویز صاحب واقعی خارجی ثبوت مہیا کر بھی نہیں سکتے ۔جبکہ ہمارے نزدیک کم ازکم دو خارجی ثبوت ضرور موجود ہیں ۔
۱۔حفظ قرآن
حفظ قرآن کاسلسلہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا اور آج تک بلا انقطاع جاری وساری اور ہر آن اضافہ میں ہے۔ حفاظت قرآن کا یہ ایسا زندہ ثبوت ہے جس کا ہر شخص کسی وقت بھی تجربہ کر سکتا ہے۔مگر طلوع اسلام کے نظریات کے لحاظ سے بے کار ہے، کیونکہ قرآن رٹا کے بغیر حفظ نہیں ہو سکتا اور طلوع اسلام بلا سوچے سمجھے تلاوتِ قرآن کا مخالف ہے۔حفظ عموماً بچپن میں کرایا جاتاہے،پھر عجمی لوگ بھی حفظ کرتے ہیں ۔ان میں سے بھی اکثر قرآن کے معانی ومطالب نہیں سمجھتے اگر کوئی پڑھا لکھا قرآن کے معانی پر ہی غورکرتا رہے تو حفظ نہیں ہو سکتا ۔ علاوہ ازیں طلوع اسلام قرآ ن پاک کے صوتی اعجازکا قائل نہیں بلکہ وہ اس صوتی اعجازکا سلسلہ عہد سحر سے منسلک کرتا ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے تلاوت قرآن پاک) لہٰذا اس جماعت میں کوئی حافظ آپ کو کم ہی نظر آئے گا ۔پھر ان حضرات کو حفاظت قرآن کایہ زندہ ثبوت نظر کیسے آئے ؟
۲۔مستند اَحادیث
حفاظت قرآن کا دوسرا جیتا جاگتا ثبوت مستند احادیث کا وجود ہے۔ جسے طلوع اسلام ناقابل اور ظنی چیز سمجھتا ہے اور محض تاریخ کے مقام پر لے آتاہے اورلطف کی بات یہ ہے کہ اس ظنی اور ناقابل اعتماد چیز کو کسی وقت حفاظت قرآن بلکہ حفظ قرآن جیسے اہم مسئلہ میں پیش کر دیتا ہے مثلاً
’’ اور تاریخ سے ہمیں اس بات کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفاظ سے بار بار قرآن کو سنا کرتے تھے اٰورخود بھی ان کو سناتے تھے ، اس مقصد کے لئے مکہ میں حضرت ارقم مخزومی کا مکان متعین تھا ۔اور مدینہ میں مسجد نبوی میں صفہ عام طور حفاظ کا مرکز تھا ، چنانچہ حضور کی وفات کے وقت سینکڑوں حفاظ ایسے موجود تھے اور ان میں سے متعدد ایسے تھے جن کوسند خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطافرمائی تھی۔‘‘ [قرآنی فیصلے:۲۱۷]
اب خدا را بتلائیے کہ جس شخص کی تمام عمر پورے مجموعہ حدیث کو ناقابل اعتماد قرار دینے میں گزری ہو اسے حدیث سے استفادہ کا حق پہنچتا ہے؟ یہی تو سائل کا اعتراض تھا پھر آپ نے جواب میں وہی ظنی چیز پیش فرما دی۔
٭٭٭