کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 612
دوسری بات جو اس ضمن میں قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں کئی طرح سے کلام کر سکتا ہے یا نہیں ؟ تو اگر اللہ ایک ہی وقت لاکھوں انسانوں کی بات سن سکتا ہے تو اسے ایک ہی وقت میں کئی طرح سے کلام کرنے پر قادر بھی تسلیم کر لیا چاہیے اور چونکہ پیغمبروں کو بسا اوقات جبریل کے ذریعہ کلام پہنچاتا اور ان سے ہم کلام ہوتا ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام ہی سے یہ کہاتھا کہ وحی میں زیادہ قر اء توں کی اجازت دی جائے۔ اس کی کیفیت کیا ہو سکتی ہے ۔ یہ جاننا نہ ہمارے لیے ضروری ہے ، نہ ہم جان سکتے ہیں ۔ البتہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آرتھر جیفری کی تالیف: بات در اصل یہ ہے کہ عرصہ دراز سے مستشرقین کی یہ عادت بن چکی ہے کہ علمی تحقیق وتنقید کے نام پر اسلام پر ہر محاذ سے حملہ آور ہوتے ہیں ۔ اس علمی تحقیق میں اور توسب کچھ ہوتا ہے، لیکن ایمانیات کو چنداں دخل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے ایک مستشرق آرتھر جیفری ہیں جنہوں نے کتاب المصاحف لابن ابی داؤد کہیں سے ڈھونڈ کر اس کو شائع کر دیا اور ساتھ ہی ایسے بعض دوسرے کتاب المصاحف کے نسخوں سے ایک جدول تیار کر کے پیش کر دیا ہے۔ جس میں ہر طرح کے اختلافات سے تعلق رکھنے والی ہر روایت ، خواہ وہ کس درجہ کی تھی، کو اس جدول میں درج کر کے ثابت یہ کرنا چاہا ہے کہ مصحف عثمانی کے بعد سے آج تک تو مان لیا کہ قرآن میں کچھ فرق نہیں پڑا، لیکن اس سے پہلے کی متن کی صحت اور اس کے خالص وحی الٰہی ہونے کا کیونکر یقین کیا جا سکتاہے؟ جبکہ روایات میں یوں مذکور ہے کہ یہ آیت یا سورۃ یوں بھی نازل ہوئی تھی۔ اور یوں بھی،اور کتاب المصاحف کو اس کے ساتھ اس لیے طبع کر دیا ہے کہ حوالہ کا کام دے سکے۔ اس مستشرق نے ساری کتاب المصاحف کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا ۔بلکہ اختلافات کے صرف اس حصہ کو نمایاں کرکے شائع کیا ہے، جس کی اسے ضرورت تھی۔ اس طرح اس نے ثابت یہ کرنا چاہا ہے کہ جو صورت بحیثیت تحریف وتبدل تورات اور انجیل کی ہے وہی قرآن کی بھی ہے۔ پھر فرق کیا رہا؟ اب طلوع اسلام جو خود بھی اس بات کا قائل نہیں کہ یہ قراءت یوں بھی ہو سکتی ہے اور یوں بھی، بھلا اس مستشرق کو کیا جواب دے سکتا تھا؟ الٹا روایات پر برس پڑا اور اسی پرانی سرتال میں فرمایا : ’’عجم کی سازش اس سے کہنا یہ چاہتی ہے کہ قرآن کریم میں پہلی صدی کے آخر تک تبدیلیاں ہوتی رہیں اور یہی وہ زمانہ ہے جب احادیث کی تدوین شروع ہوئی تھی یعنی امام مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ کا زمانہ۔ لہٰذا اس وقت قرآن وحدیث دونوں ہی غیر محفوظ شکل میں تھے۔ ہمارے پاس قرآن بھی ایک تابعی، اور احادیث بھی تابعین ہی کی جمع کر دہ ہیں ۔ لہٰذا دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ قرآن ایک ایسے تابعی کا ہے جو ظلم وستم اورفسق وفجور میں آج تک ضرب المثل ہے، اورحدیث امام زہری رحمہ اللہ کی ہے ـ( حجاج کا سن وفات ۹۵ ھ ہے، لیکن اعراب اس نے ۸۶ ھ میں لگوائے تھے اور امام زہری رحمہ اللہ کاسن وفات ۱۲۷ھ ہے۔یہ تو وہ ربط ہے جو طلوع اسلام نے قائم کرنا چاہا ہے مگر ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ تدوین کتابت حدیث کا کام دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شروع ہو چکا تھا۔ اس بات کو ہم اس کے مقام پر تفصیل سے پیش کرچکے ہیں ۔)جوائمہ حدیث کے نزدیک نہایت متقی اور پر ہیزگار تھے۔‘‘ [مقام حدیث:۲۹۸] حفاظت قرآن سے متعلق ایک اعتراض اور ا س کا جواب طلوع اسلام سے کسی نے پوچھاتھا کہ حفاظت قرآن سے متعلق داخلی شہادتیں تو صرف مسلمانوں کے لئے کار آمد