کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 611
طلوع اسلام کایہ تبصرہ کہ ’’ قرآن کریم کے نسخوں میں اکثر مقامات پر یہ لکھا دیکھیں گے کہ ایک اور قرا ء ت میں یوں بھی آیا ہے‘‘ درست نہیں ۔ آپ خود اپنے گھر میں موجود قرآن کریم کے نسخوں میں یا کسی قرآن کے پبلشر کی دوکان پر جا کر مختلف قسم کے نسخوں میں خود ملاحظہ فرما لیجیے کہ کسی قرآن پر آپ کو ایسی عبارت کہیں لکھی نظر آتی ہے ہم جانتے ہیں کہ بعض پرانے قلمی نسخوں میں ایسے اختلافات قراءت کاذکر ہوتا تھا جبکہ ماحول علمی تھا۔ اور اب جو یار لوگوں کا زمانہ آگیا تو یہ سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ کتاب المصاحف میں اگر ایسے اختلافات کاذکر ہے تو یہ کتاب لائبریریوں کے سوا دستیاب بھی کہاں سے ہوسکتی ہے؟ آٹھ آٹھ نو نو سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے اس کتاب کے نام تک سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ تو کیایہ بات اس ثبوت کیلئے کافی نہیں کہ ایسے مسائل عوامی نہیں ہوتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کیا تھا اور آج طلوع اسلام اس اختلاف ِ قراءت کی عوام میں اشاعت کر کے ایک دوسرا فتنہ بپا کر کے امت میں ذہنی انتشار پھیلا رہا ہے۔ اب رہایہ سوال کہ اگر یہ اختلافات ِ قراءت احادیث میں مذکور نہ ہوتے توکیا شیعہ حضرات متعہ کے قائل نہ ہوتے یا مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کا دعوی نہ کرتا۔ جب تمام امت کا مصحف عثمانی پر اتفاق ہے ۔ شیعہ حضرات بھی اس متداول قرآن کو معتبر سمجھتے ہیں اور مرزائی بھی۔ تو ایسے اختلافات قراءت ثبوت نہیں بن سکتے۔ البتہ یہ لوگ ایسی روایات کوبطور تائید ہی پیش کر سکتے ہیں ۔ اور یہی کچھ وہ کرتے ہیں ۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر احادیث میں ولا محدّث والی قراءت کا ذکر نہ ہوتا تومرزا قادیانی نبوت کا دعوی نہ کرتا ؟قراءت میں تو ذکر محدث کا ہے اور قادیانی صاحب کا دعوی نبوت کا ہے پھر اس لفظ محدث سے نبوت کا استشہاد کیونکر درست سمجھا جاسکتا ہے؟ اسی طرح متعہ کے مسئلہ کی بنیاد بھی محض یہ اختلافات قراءت نہیں ، بلکہ اس کا تعلق ناسخ ومنسوخ سے ہے۔ یہ مسئلہ چونکہ خاصی تفصیل چاہتا ہے اور طلوع اسلام نے بھی مقام حدیث میں ایک مستقل الگ باب کی صو رت میں پیش کیا ہے۔ اسی لیے ہم نے بھی الگ عنوان کے تحت قلمبند کر دیا ہے۔ رہی بات کہ لفظ أرجلکم کے ل پر زبر نازل ہوئی تھی یا زیر ، تواس کا جواب یہ ہے کہ نازل تو نہ زبر ہوئی تھی نہ زیر۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عربی زبان کو کوفی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا جو قلیل اللفظ تھا۔یعنی زیر، زبر تو درکنار نقطے بھی بہت کم ہوتے تھے لہٰذا اگر ہم اس قضیہ کا فیصلہ کرنے کے لئے نیشنل لائبریری کراچی میں ایوب خاں صاحب کا روس سے مصحف عثمانی کا لایا ہوا عکس دیکھ بھی لیں تو یہ چنداں سود مند نہ ہوگا۔ اب ہم طلوع اسلام کی منشاء کے لئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ قراءت کے اختلافات کی سب روایات غلط ہیں اور یہ بھی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی تھی اس پر زبر ہی تھا اور ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو پڑھایا تھا تو کیا ارجلکم پڑھنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ جبکہ ارجلکم( ل کی زبر) پڑھنے کے باوجود بھی قواعد زبان کی رو سے دلائل ترجیح دونوں طرف قریب قریب برابر ہیں ؟ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر آپ اس کا کیاحل تجویزفرمائیں گے؟ اس کا صحیح حل وہی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سر انجام دیا تھا۔ ایسے اختلافات والی تمام تر قراءت حسب ارشاد الٰہی بھلا دی گئیں (۱۰۶/۲) اور یہ کچھ ہوا منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔