کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 610
۲۔ حجا ج بن یوسف نے اگر کچھ درست کرنا ہی تھا تووہ تین یاچار اغلاط درست کرتا جن کا پہلے ذکر آیا ہے۔ ۳۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا صحابہ رضی اللہ عنہم میں جو مقام تھا ،ان صحابہ میں جنہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھا تھا،وہ حجاج جیسے شخص کو قطعاً حاصل نہ تھا۔ تو جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے اختیار سے تین یا چار اغلاط درست نہ کر سکے تو حجاج بن یوسف کیسے کرسکتا تھا؟ ۴۔ فہرست میں درج شدہ فہرست بھی تحقیق سے بعض مقام پر غلط ثابت ہوتی ہے، مثلاً نمبر ۵ کے تحت درج ہے کہ مصحف عثمانی میں سیقولون اللّٰہ درج ہے جبکہ حجاج نے اس کو سیقولون اللّٰہ بنا دیا۔ مگر جب قرآن سے مقابلہ کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوئی اور جب ایک بات غلط ثابت ہوگئی تو دوسرے بیان کا کیا اعتبار؟ تیسرا اعتراض اختلافاتِ قراءت جن میں الفاظ کی زیادتی ہے۔ اب ہم ان تین حدیثوں کا ذکر کریں گے جن میں سے دومیں تو الفاظ کی زیادتی ہے اور ایک میں اعراب کا فرق ہے۔ اور یہ تین حدیثیں یا مثالیں ایسی ہیں جنہیں طلوع اسلام نے اس سارے مجموعہ سے چھانٹ کر لوگوں کو احادیث سے برگشتہ کرنے کے لئے پیش کیا ہے اور وہ مثالیں یہ ہیں : ۱۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قراءت میں فاستمتعم بہ منہن سے آگے إلٰی أجل مسمی بھی مذکور ہے جس سے شیعہ حضرات کو متعہ کے جوازی کی سند مل جاتی ہے۔ ۲۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہی قراءت میں ’’ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی کے آگے ’’ولا محدّثٍ ‘‘ بھی مذکور ہے جس کو غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ ۳۔ تیسری مثال در اصل ایک استفسار ہے کہ ’’ وامسحوا بر ء و سکم وارجلکم الی الکعبین ، ارجلکم کے ل پر زبر ہے یا زیر؟ اگر زبر پڑھا جائے تو سنیوں کے مسلک یعنی پاؤں دھونے کی تائید حاصل ہوتی ہے اور اگر ل کی زیر پڑھی جائے تو شیعہ کے مسلک کو تائید حاصل ہوتی ہے کہ پاؤں پر مسح کرنا چاہیے اور قراءت دونوں طرح سے متواتر آئی ہیں پھر ان میں صحیح کون سی ہوئی؟ ان مثالوں کو ہم نے اختصا ر کے ساتھ ضرور لکھا ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ طلوع اسلام جو کچھ مطلب سمجھانا چاہتا ہے ہے وہ فوت نہ ہو۔ پھر آخر میں طلوع اسلام نے یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد’’ اختلاف قراء ت‘‘ کے فتنہ کے متعلق کچھ سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن ہمارے علمائے کرام قرآن کے متداول متن کو بھی من جانب اللہ مانتے ہیں اور ان اختلافی آیات کو بھی منجانب اللہ کیونکہ ان کی بنیاد واحادیث پر ہے۔ ہم نے ان اختلافی آیات کی صرف دو تین مثالیں پیش کی ہیں ۔ آپ قرآن کریم کے نسخوں میں اکثر مقامات پر یہ لکھا دیکھیں گے کہ ’’ ایک اور قراءت میں یوں بھی آیا ہے‘‘ یعنی یہ آیت یوں بھی نازل ہوئی تھی اور یوں بھی‘‘ [ایضا:۵۶] اب دیکھیے اختلاف قراءت کے فتنہ ہونے سے انکار کس کو ہے؟ یہ فتنہ ایسا نہیں جس کاسراغ طلوع اسلام نے ہی لگایا ہے۔ اسی اختلاف ِ قراءت کے فتنہ سے ہی متاثر ہو کر حضرت حذیفۃ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس فتنہ کاسد باب کر دیا۔