کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 609
۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ایک مقام پر۔
۳۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ میں چار مقامات پر۔
۴۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میں ۱۳۸ مقامات پر۔
۵۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میں ۱۶ مقامات پر۔
۶۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ میں ۶ مقامات پر۔
۷۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں ۲ مقام پر اختلاف پایا گیا ہے۔
اب دیکھیے یہ ’الامام ‘ کے مکمل اور تیار ہوجانے کا ہی ثمرہ تھا۔ کہ اس سے دوسرے مصاحف کا تقابل کر کے ان اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر یہ الامام ہی تیار نہ ہوتا تو کسی بھی مصحف کی اغلاط پرکھنے کا کوئی معیار تھا؟پھر ان مصحح حضرات نے جو جو اغلاط دیکھیں نہایت دیانتداری سے وہ اختلاف بیان کر دیا۔ اب وہ حضرات تو ان اختلافات سے مراد سہو ونسیان کی وجہ سے سرزد ہونے والی غلطیاں لیتے تھے او رہمارے یہ کرم فرما اس اختلاف کے لفظ سے انتشار مراد لے کر مسلمانوں کو احادیث سے برگشتہ کرنے کے لئے در پے ہیں ۔
مصحف امام کی اغلاط
ہر چند کہ بارہ رکنی کمیٹی نے انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔ تاہم اس میں تین یا چار اغلاط پھر بھی رہ گئیں ۔ اب غور فرمائیے کہ قرآن کی ۶۶۶،۶ آیات ہیں اور ۸۶۴۳۰ الفاظ ہیں ۔ان میں تین یا چار اغلاط کے باقی رہ جانے کو بشریت کے تقاضوں پر ہی محمول کیا جا سکتاہے۔ ’الامام‘ سے نقول بھی تیار ہو گئیں ۔ پھر جب ’الامام‘ کی خود دوبارہ سہ بارہ چیکنگ کی گئی تو اس میں سے تین چار اغلاط نکل آئیں ۔جوقریش کے لہجہ سے متعلق تھیں مگر ان سے معانی میں چنداں فرق نہیں پڑتاتھا۔چنانچہ عروۃ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کی غلطیوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ (۱) إن ہذان لساحران (۲) والمقیمین الصلوٰۃ والموتون الزکوٰۃ (۳) والذین ہادوا والصائبون کے متعلق کیا فرماتی ہیں ؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’بھتیجے یہ کاتبوں کا کام ہے انہوں نے لکھنے میں غلطی کر ڈالی۔‘‘
ان اغلاط کی توجیہ میں ایک روایت بھی کتاب المصاحف میں آتی ہے جس کو مقام حدیث میں بھی ص۲۹۰ پر درج کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ
’’جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس مصحف لایا گیا تو اس میں انہیں کچھ غلطیاں نظر آئیں ۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر لکھانے والا بنوہذیل کا اور لکھنے والا بنو ثقیف کا کوئی آدمی ہوتا تو اس میں یہ غلطیاں نہ پائی جاتیں ۔‘‘
حجاج بن یوسف کی درست شدہ اغلاط
اس کے بعد مقامِ حدیث ۲۹۴ پر ایک فہرست اسی کتاب المصاحف کے حوالہ سے درج کی گئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف نے گیارہ مقامات پرتبدیلیاں کیں ۔ یہ روایت ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں جس کی وجوہ درج ذیل ہیں :
۱۔ ایسی حدیث کتب صحاح میں کہیں نظر نہیں آئی۔