کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 606
طلع بھی پڑھا جاتا تھا۔ [ایضا: ۵۰]
ب مرادفات کا استعمال: یعنی ایسے الفاظ جو کسی خاص معنی کیلے مختلف قبائل میں مختلف تھے۔ جیسے اقبل ہلم اور تعال۔ عجل اور اسرع ،انظر ،اخر، اور امہل سبعہ احرف کی رعائت کے لحاظ سے قرآن کی تلاوت میں ایسے مترادفات کے استعمال کی ان قبائل کو حسب ضرورت اجازت تھی۔ [ ایضا:۴۶]
۲۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حرف واحد
ہم بخاری کی روایت کے حوالہ سے بتلا چکے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والے جمع کردہ مصحف کوسامنے رکھ کر قرآن کی سورتوں کے لحاظ سے از سرنو ترتیب دی۔ اور قرآن کو صرف قریش کے لغت پر لکھوایا۔ پھر مختلف دیار وامصار میں اس کی مختلف نقول بھجوائیں ۔ اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ جاری کیا کہ پہلے مصاحف(جو سبعۃ احرف کے آئینہ دار تھے) کو جلا دیا اورتلف کر دیا جائے۔ اس طرح آپ نے امت کو ایک عظیم فتنہ سے بچالیا۔ یہ کام آپ نے صحابہ کے اجماع سے کیا۔ اور آپ کے اس کارنامہ کوتمام امت نے سراہا۔
اس مقام پر صاحب تبیان چند بنیادی سوال اٹھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
’’آخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس وہ کو نسا اختیار تھا۔ جس کی بنا پر انہوں نے باقی چھ محاوروں جو کہ ساتویں اور باقی رہنے والے کی طرح منزل من اللہ ہی تھے ، کو موقوف یا ختم کر دیا؟ اور اس سے معاملہ میں امت آپ سے متفق کیسے ہو گئی ؟ کیا اسی کا نام حفاظت وحی الہی ہے جس کے لیے یہ امت مامور تھی؟ نیز یہ کہ باقی چھ محاورہ سے منسوخ ہوگئے یا اٹھا لیے گئے۔‘‘
پھر اس کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لغت قریش کے علاوہ باقی چھ حروف محض اجازت ورخصت تھی۔ ان ساتوں قر اء ات میں کسی ایک کوپسند کر لینا امت کے لئے ایک اختیاری امر تھا۔ اور اس خاص قراءات کو اختیار کر لینے سے باقی کا ضیاع یا ابطال یا تغلیط قطعاً لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا بھی ہے ، دس مسکینوں کوکھانا کھلانا بھی انہیں پوشاک مہیاکرنا بھی اور تین روزے رکھنا بھی ہے(اب اگر کوئی شخص ان سب میں سے کوئی ایک کفارہ ادا کر دیتا ہے تو اللہ کے حکم کی تعمیل بھی ہو گئی اوردوسرے متبادل اختیاری احکام میں سے کسی کی بھی تغلیط ، ابطال یا ضیاع بھی نہیں ہوا۔ لہٰذا اگر امت نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اپنے لیے ایک حر ف(لغت قریش جو اس کی زیادہ مستحق تھی) کو پسند کر کے اسے اختیار کر لیا تو اس سے دوسرے حروف کا ضیاع یا ابطال یا تغلیط قطعاً لازم نہیں آتا۔
رہا یہ سوال کہ آیا باقی چھ حروف جو چھوڑ دئیے گئے وہ اٹھا لیے گئے یامنسوخ ہوگئے ہیں ؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ وہ حروف نہ اٹھا ئے گئے ہیں نہ منسوخ ہوئے ہیں اب بھی اگر کوئی قاری ان حروف میں سے کسی حرف پر پڑھنا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ۔٭ [ص۴۶] تاہم مناسب یہی ہے کہ مسلمان اسی قراءات کا تتبع کریں جو مصاحف عثمانی میں متفق علیہ طور پر پائی جاتی ہے۔ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں ۔
’’فلا قراءۃ الیوم للمسلمین الا بالحرف الواحد الذی اختارہ لہم امامہم الشفیق الناصح دون ما عداہ من الاحرف الستۃ الباقیۃ‘‘ [ص۴۶]
’’آج مسلمانوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس حرف واحد کے سوا جسے ان کے مشفق اور ہمدرد امام نے ان کے لیے