کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 605
خزاعہ، اور اسد کے لغت شامل ہوئے ہیں ۔ [تبیان:۶۴]
۲۔ بعض علماء سبعۃ کے عدد سے محض سات نہیں بلکہ کثرت کا عدد مراد لیتے ہیں ۔ اور مندرجہ بالا قبائل میں قیس، ضبہ، اورتیم الرباب کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ [حوالہ ایضا]
اور معنی کے لحاظ سے بھی سبعہ کا لفظ صرف سات سے ہی مختص نہیں بلکہ اس کا اطلاق محض محاورتاً ہوا ہے۔ یعنی یہ لفظ محض ایک سے زیادہ لغتوں کے لیے آیا ہے۔ خواہ وہ دو ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ پورے قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو سات مختلف لغتوں میں پڑھاگیا ہو۔ [ص۴۴]
۳۔ مختلف قراءات کی اجازت کے دو فائد ے تھے:
۱۔ مختلف قبائل کے لیے قرآن پڑھنے میں آسانی
۲۔ مختلف قبائل کے لیے قرآنی الفاظ کے ترجمہ وتفسیر کی عدم ضرورت
۴۔ اَوامر ونواہی اور حلال وحرام میں اس اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے جہاں یہ سبعۃ أحرف والی روایت درج کی وہاں بخاری کی روایت سے درج ذیل زائد الفاظ کا اضافہ بھی کیا۔
زاد مسلم :قال ابن شہاب بلغنی أن تلک السبعۃ إنما ہی فی الأمر الذی یکون واحداً لایختلف فی حلال وحرام [ایضا:۳۵]
’’مسلم رحمہ اللہ نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں کہ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ سبعۃ أحرف کی اجازت صرف ایسے امر میں تھی کہ اس سے حلال وحرام میں اختلاف واقع نہ ہو۔‘‘
مزید وضاحت یہ ہے کہ اس اختلاف قراءات میں حلال وحرام کے علاوہ اوامر ونواہی کے معاملہ میں بھی کوئی گنجائش نہیں ۔ [تبیان:ص۴۲]
اور اس اختلاف قراءات کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ سے کی جاتی ہے:
’’فی حرف واحد کلمۃ واحد باختلاف الفاظ واتفاق المعانی‘‘ [ص۴۴]
یعنی کسی حرف میں یاکلمہ میں اختلاف کی صرف اس حد تک گنجائش کہ اس سے معانی میں چنداں فرق نہ پڑے۔‘‘
۲۔ اختلاف الفاظ کی مند رجہ ذیل دو صورتیں تھیں :
۱۔ تلفظ کا اختلاف۔ جیسے قبیلہ قیس کے لوگ مؤنث کے کاف کوش سے ادا کرتے تھے۔ اسے(کشکشہ کہتے تھے) مثلاً وہ لوگ قد جعل ربک تحتک ثریا کو قد جعل ربش تحتش سریا پڑھتے تھے۔
۲۔ قبیلہ تمیم کے لوگ إن کو عن پڑھتے تھے( اسے عنعنہ کہتے تھے) وہ لوگ عسی اللّٰہ أن یأتی بالفتح وعسی اللّٰہ عن یأتی بالفتح پڑھتے تھے۔
۳۔ بعض قبائل س کی بجائے ت پڑھتے تھے یعنی الناس کو النات کہتے تھے اسی طرح صراط کو سراط اور طلح کو