کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 604
اِعتراض کاجواب طلوع اسلام کی طرف سے قراءت کے اختلاف کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ عربوں کے مختلف قبیلے بعض حروف کو مختلف طریق سے ادا کیا کرتے تھے مثلا ً بعض قبیلے’ ک‘ کو’ گ‘ بولتے تھے۔ اسی طرح جس طرح آج کل لاہور کے اصلی باشندے ’ڑ ‘کو ’ر ‘ کہتے ہیں ( یعنی چڑی کو چری) اور ہوشیار کو پور کے رہنے والے واہیات کو باہیات کہتے ہیں ۔ حتی کہ حیدر آبادی قرآن کو خران بولتے ہیں ۔ اس اختلاف کے متعلق ابن خلدون رحمہ اللہ نے لکھا ہے ’’ قراءت کے اختلافات قرآن کے تواتر میں مطلق خلل انداز نہیں ہو سکے۔ کیونکہ ان کا مرجع کیفیت ادائے حروف تھا۔ [قرآنی فیصلے:۲۱۹] اب رہا یہ سوال کہ ایک ہی قبیلہ اور ایک ہی مقام کے لوگوں میں یہ لب و لہجہ یا الفاظ کا اختلاف کیسے ممکن ہے؟ ہمارے خیال میں یہ بھی ممکن ہے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ایک ہی قبیلہ کے ایک مقام پر رہنے والے بعض گھرانوں میں بچے اپنے باپ کو ابا کہتے ہیں توبعض دوسرے گھرانوں میں ابو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض بچے اپنے باپ کے بھائی کو ’چاچا‘ اور بعض دوسرے’چاچو‘ تو پھر اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ میں ایسے اختلافات واقع ہو گیا تو اس میں کونسی عجیب بات نظر آتی ہے؟ نزول قرآن کے وقت یہ سہولت مدنظر رکھی گئی تھی کہ لوگ اپنی زبان موڑنے پر توجہ دینے کی بجائے زیادہ توجہ اس کے حفظ پر دیں اور یہ رعایت بالخصوص رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش پر دی گئی تھی ۔ بخاری میں ہے: ’’أن ابن عباس حدثہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:اقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ،فلم أزل استزیدہ ویزیدنی حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف‘‘ [صحیح البخاري،کتاب التفسیر، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف] ’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو ایک ہی محاورے پر قرآن پڑھایا ۔ میں نے ان سے تقاضا کیا اور برابر زیادہ قرا ء توں پر پڑھنے کے لئے تقاضا کرتا رہا۔ تاآنکہ سات قراء توں کی اجازت ملی۔‘‘ سبعۃ احرف سے متعلق چند ضروری وضاحتیں مندرجہ ذیل اقتباسات ، کتاب البیان لبعض المباحث المتعلقۃ بالقرآن للمعتصم باللّٰہ ظاہر بن صالح بن أحمد الجزائری مطبعۃ المنار بمصر ۱۳۳۴ھ سے ماخوذ ہیں ۔ سبعہ اَحرف بمعنی سات لغت یا سات محاورے اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور قابل ملاحظہ ہیں : ۱۔ سبعۃ أحرفکی تعبیر میں علماء نے اختلاف کیاہے۔سب سے راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ مختلف لغات ہیں جو عرب قبائل میں رائج تھیں ۔ قرآن بنیادی طور پر قریش کی زبان اور محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قول سے واضح ہوتا ہے تاہم تنزیل قرآن کے دوران رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استدعا پرنزول قرآن میں دوسرے قبائل کے لغت بھی شامل کیے تھے۔محاورہ قریش کے بعد دوسرا نمبر بنو سعد کاہے۔ آپ کی اسی قبیلہ میں بچپن میں تربیت ہوئی تھی۔ پھر اس میں کنانہ ، ہذیل ، ثقیف،