کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 603
اعتراضات کیے ہیں انہیں تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ لب ولہجہ یا تلفظ کے اختلافات
۲۔ اغلاطِ کتابت
۳۔ مختلف قراء توں میں زائد الفاظ کے اختلافات
ہم اسی ترتیب سے ان کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
۱۔ لب ولہجہ یا تلفظ کے اختلافات
اس ضمن میں آپ نے بخاری کی اس حدیث کا ترجمہ پیش کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نماز میں سورۃ فرقان پڑھ رہے تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان کی تلاوت سنی تو دیکھا کہ کئی حروف اس قراءت سے بدلے ہوئے پڑھ رہے ہیں جوقراءت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سکھلائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے چین ہو گئے۔ تاہم ہشام رضی اللہ عنہ کے نماز ختم کرنے تک صبر کیا اورپوچھا تم یہ سورت اس اس طرح کیوں پڑھ رہے تھے؟ ہشام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی پڑھائی ہے۔ اس جواب پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے گلے میں چادر ڈال لی اور انہیں کھینچ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور کہا کہ ہشام سورۃ فرقان ایسے نہیں پڑھتا جیسے آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے چھوڑ دو ۔ پھر ہشام رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے یہ سورۃ پڑھ کر سناؤ ، حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنائی توآپ نے فرمایا کہ یہ سورت یوں ہی نازل ہوئی تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، اب تم سناؤ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سن کر بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ یونہی نازل ہوئی تھی۔ پھر فرمایا:((إنّ ہٰذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ)) [صحیح بخاری،کتاب التفسیر،أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف]
’’بیشک یہ قرآن سات محاوروں پر اترا ہے، جو محاورہ تم کو آسان معلوم ہواسی طر ح پڑھ لو۔‘‘
طلوع اسلام نے اس حدیث کا ترجمہ نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ یوں فرمایا:
’’آپ کوحیرت ہوگی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی قریشی او رمکی اور ہشام بھی قریشی او رمکی ہیں ۔ دونوں کی زبان ایک ہے۔ لب ولہجہ ایک ہے ایک ہی خاندان او رایک ہی مقام کے دونوں آدمی سورۃ فرقان کو اس قدر اختلاف کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان پر حملہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اورنماز کے بعد انہیں کی چادر کس کر گھسیٹتے ہوئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہشام سے سن کر بھی فرماتے ہیں کہ ہاں یوں ہی نازل ہوئی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سن کر بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں یونہی نازل ہوئی ہے۔ [طلوع اسلام جنوری۱۹۸۲ء ،ص۵۲]
اس روایت کے ذکر او رتبصرہ سے آپ نے ثابت یہ کرنا چاہا کہ یہ اختلاف لب ولہجہ یا تلفظ کا نہ تھا بلکہ بہت سے الفاظ کاتھا اور تھا بھی اتنا شدید کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں ہی حملہ پرتیار ہو گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جیسی جوشیلی طبیعت تھی وہ سب کو معلوم ہے ۔ بار ہا آپ رضی اللہ عنہ نے جب کوئی کام اپنی مرضی کے خلاف او رمعصیت کا دیکھا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کا اذن مانگنے لگتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روک دیتے ۔ اب طلوع اسلام کے اس تبصرہ کا جواب ہم خود نہیں دیں گے ۔بلکہ اس کے جواب میں طلوع اسلام کا ہی ایک دوسرے مقام سے اقتباس پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں ،فرماتے ہیں :