کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 602
دورِ حجاج بن یوسف ۶۵ تا ۱۱۵ھ ، اعراب اور نقاط تنزیل قرآن کے وقت عربی زبان ایسے کوفی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی جو زیر،زبر وغیرہ حرکات کے بغیر لکھاجاتا ۔ علاوہ ازیں یہ قلیل النقط بھی تھا۔ مثلاً ج، ح، خ، تینوں حروف ایک ہی طرح لکھے جاتے ۔ اس طرح کی تحریر سے اہل عرب تو مستفید ہو سکتے تھے، لیکن غیر عرب پڑھنے میں اکثر غلطیاں کر جاتے تھے۔اس مشکل کو رفع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ کام حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص سے لیا اور یہ کام ۷۶ھ میں سر انجام دیاگیا۔ ادارہ طلوع اسلام خود بھی اس بات کا معترف ہے ۔ قرآنی فیصلے ص۲۱۹ پر لکھا ہے: ’’باقی رہا اعراب کا سوال، سو عربوں کے لئے اعراب کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بلا اعراب قرآن کو اس طرح پڑھتے تھے جس طرح غیر عرب اعراب کے ساتھ پڑھتے تھے۔ یہ اعراب غیر عربوں کی سہولت کے لئے لگا دیے گئے۔ قرآن کی یہ خدمت اگر حجاج کے حق میں جاتی ہے تو اس کی خونخواری اس پر اثرا انداز نہیں ہوتی۔‘‘ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ نقاط لگانے کا کام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابو الاسود الدؤلی رحمہ اللہ نے عہد ِصحابہ ہی میں سر انجام دے دیا تھا۔ ابو الاسود الدؤلی رحمہ اللہ کی وفات ۶۹ھ میں ہوئی تھی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حروف پر نقاط لگانے کا کام تو۶۹ھ سے پہلے ہی مکمل ہو گیا تھا۔ البتہ اعراب لگانے کاکام حجاج نے ۷۶ ھ میں انجام دیا تھا۔ ۵۔ اَدوارِ ما بعد میں رموز اوقاف وغیرہ بعد کے ادوار میں دو طرح کے اضافے ہوئے یعنی متن کے اندر اور متن کے باہر۔متن کے اندر جو اضافے ہوئے،ان میں سر فہرست رموز اوقاف (Punctuation) ہیں ۔یعنی قرآن کریم کی تلاوت کے وقت کس مقام پر ٹھہرنا ضروری ہے او رکس مقام پر اگلی عبارت کو ساتھ ملانا ضروری ہے۔ اہل عرب کو تو ان اوقاف کی ضرورت نہیں تھی لیکن غیر عرب لوگوں کے لئے یہ بھی انتہائی ضروری ہیں ۔ قرآن پر آپ کو جابجا ،ج ، صلے،:۔(معانقہ) اورم وغیرہ باریک قلم سے لکھے ہوئے حروف ملتے ہیں ۔ یہ انہی رموز کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اور دوسرا اضافہ آیات نمبر لگانے کا طریق ہے جو موجودہ دور میں اپنایا گیا ہے اور متن سے باہر جو اضافے ہوئے ہیں ان میں قرآن کو ۳۰ پاروں میں تقسیم کر کے ہر پارے کے پہلے ایک دو الفاظ کو متن سے باہر پیشانی پر لکھنا ہے۔ اسی طرح سورۃ کا نام بھی اسی طرح پاروں کو پھر چار حصوں میں تقسیم کر کے الربع،النصف،الثلٰثۃ، وغیرہ لکھنا ہے۔ اسی طرح ہر سورت کے رکوعات بھی نمبر دے کر لکھ دیے جاتے ہیں اور یہ نقاط ، اعراب، اوقاف، رکوع، آیات کے نمبر وغیرہ سب مصحف عثمانی کے بعد کی باتیں ہیں جوقرآن کے موجودہ نسخوں میں مندرج ہیں ۔ ان کے فائدہ سے انکار نہیں لیکن ان کی شرعی حیثیت کچھ نہیں ۔ تاہم ایسے اضافہ جات کے جواز کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ ﴿لَا یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ ﴾ [حم السجدۃ:۴۲] ’’باطل نہ آگے سے اس کے پاس پھٹک سکتا ہے نہ پیچھے سے ۔‘‘ جمع اور ترتیب قرآن پر طلوع اسلام کے اعتراضات طلوعِ اسلام نے مقام حدیث میں ایک مضمون ’قرآن کریم روایات کے آئینے میں ‘کے تحت اور طلوع اسلام جنوری ۱۹۸۲ء میں ’پھر قرآن مجید کی باری ‘ کے عنوان کے تحت قرآن کی جمع وترتیب کے اختلافات بیان کر کے جو جو