کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 601
اگر ایسی شہادت مہیا نہ ہوتی تو اس آیت کی جگہ چھوڑ دی جاتی تاآنکہ ایسی شہادت مہیا نہ ہو جاتیں ۔ پھر اس کو اس کے اصل مقام پر درج کر دیا جاتا۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ قراءت کے اختلاف کے معاملہ میں محض خبر ِ واحد مقبول نہیں ہے۔ ۵۔ ایک اہم مسئلہ سورتوں کی ترتیب کا تھا، اس سلسلہ میں تر تیب نزولی کے بجائے اس بات کا زیادہ لحاظ رکھاگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کن سورتوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے، علاوہ ازیں یہ بھی طے کیاگیا کہ لمبی سور توں کو پہلے درج کیا جائے او ربتدریج چھوٹی سورتوں کو بعدمیں اور اس ترتیب کو ترتیبِ تلاوت کا نام دیا گیا ۔ اوریہی ترتیب آج تک قائم ہے۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس ترتیب تلاوت کی کچھ شرعی حیثیت بھی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کچھ نہیں ، جیساکہ خود حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کام(یعنی قرآن کریم کی جمع وترتیب کا کام ) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تو پھر اس کی شرعی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم اس لحاظ سے آزاد ہیں کہ کوئی سورت پہلے پڑھ لیں کوئی بعدمیں ، لیکن سورتوں کی آیات کے معاملہ میں ہم ایسانہیں کر سکتے ۔ اسی طرح جو لوگ تیسواں پارہ، برائے حفظ سورۂ نبا کے بجائے سورۂ ناس سے شروع کرتے ہیں ۔یا جو پبلشر ایسا پارہ چھاپتے ہیں جن میں تمام سورتوں کی ترتیب الٹی ہوتی ہے انہیں مجرم نہیں قرار دیاجا سکتا ۔ ۶۔ اس کمیٹی کا ایک نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ رسم الخظ میں اختلاف کے معاملہ میں سو سے زیادہ مقامات پر اس نے اتفاق رائے کر لیا، مثلاً ۱۔ لفظ’ الّیل ‘ قرآن میں ہر جگہ ایک لام سے لکھا گیا ہے جبکہ عام کتب میں دو لام سے یوں ’ اللیل‘ لکھا جاتا ہے۔ ۲۔ لفظ’ابراہیم‘ سورۃ بقرۃ میں تو ’ابرٰہٖم‘(ھ کے نیچے کھڑی زیر)سے لکھا گیا، لیکن بعد میں ہر مقام پر’ ابراہیم‘( ی کے ساتھ ) لکھا گیا۔ ۳۔ رحمۃ اور لعنۃ جیسے الفاظ فلاں مقام پر تولمبی ت سے(رحمت) لکھے جائیں اور فلاں مقام پر گول ۃ سے(جیسے رحمۃ) ۴۔ اسی طرح قرآن میں جمع مذکرکے ’الف ‘ کامسئلہ ہے(طے یہ ہوا کہ جائُ و اور باء و کے بعد اسے نہ لکھا جائے۔ ۵۔ أفائن ، شایْئٍ کے زائد’الف‘ جن پر گول نشان دیا جاتا ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔٭ چونکہ مصاحف لکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تحریر میں رسم الخط کے ایسے اختلافات موجود تھے۔ لہٰذا اس رسم الخط پر اتفاق کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ یہ الفاظ آج تک بغیر کسی تبدیلی کے ویسے ہی لکھے جا رہے ہیں جیسے مصحف عثمانی میں تھے۔ ایسے تمام مقامات کا تفصیلی ذکر کتاب المصاحف لابن ابی داؤد رحمہ اللہ میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جامع القرآن نہیں تھے بلکہ ’’جامع الناس علی القرآن علی قراءۃ واحدۃ ‘‘تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ خدمت ایسی گراں قدر ہے جس کا اُمت احسان نہیں اتار سکتی۔