کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 600
قراء سے قرآن سیکھتے وہ اپنے استاد کی قراءت پر اس قدر متشدد ہو جاتے کہ دوسروں کی قر اء ت کوغلط قرار دینے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے الجھنے اور ان کی تکفیر بھی کرنے لگ جاتے تھے۔ اسی طرح کاایک واقعہ دورِ عثمانی میں پیش آیا جوبخاری میں یوں مذکور ہے: ’’ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،وہ شام اور عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیااور آذربائیجان فتح کرنے کو لڑ رہے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اس سے گھبرا گئے کہ ان لوگوں نے قراءت میں اختلاف کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کوکہلا بھیجا کہ اپنا مصحف ہمارے پاس بھیج دیں ، ہم اس کی نقلیں اتار کر پھر آپ کو واپس کر دیں گے۔ ام المؤمنین حضرت حفصہ6نے بھیج دیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ۔ انہوں نے اسکی نقلیں اتاریں ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریش کے آدمیوں (عبد اللہ، سعید، عبد الرحمن رضی اللہ عنہم ) سے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں ( جو انصاری تھے) قراءت کا اختلاف ہو توقریش کے محاورے کے مطابق لکھنا۔ اس لیے کہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جب مصاحف تیار ہو چکے توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ6کا مصحف ان کو واپس کر دیا۔ پھر ان مصاحف میں سے ایک ایک کو تمام مراکز میں پھرایا اور اس کے سوا جتنے مصاحف الگ الگ چیزوں میں لکھے ہوئے تھے ان کوجلا دینے کا حکم دیا۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن] مندرجہ بالا حدیث اور اس کے ساتھ دوسری روایات کو بھی ملانے سے اس ضمن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اقدامات کاپتہ چلتا ہے: ۱۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک بارہ رکنی کمیٹی اس غرض کے لئے تشکیل دی جس میں رئیس التحریر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے، کیونکہ وہ بہترین ماہرکتابت تھے ۔کتابت کے جملہ کام کی نگرانی انہی کے سپرد ہوئی۔ ۲۔ اس کمیٹی کا دفتر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مکان کا صحن تھا، جہاں اس کام کی نگرانی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی اکثر آیا جایاکرتے تھے۔ اسی جگہ دورِ صدیقی میں مرتب کردہ قرآن بھی تھا۔ ۳۔ اختلاف قراء ت(لب ولہجہ، تلفظ یا لحن کا اختلاف) کی صورت میں اصل معیار قریش کی قراءت کو قرار دیا گیا ۔ کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا تھا۔ باقی قراء توں کی محض سہولت کی خاطر اجازت دی گئی تھی۔ ۴۔ چونکہ قرآن کا زیادہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا ۔ اور اس کے بیشتر حصہ کی کتابت حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی انصاری تھے، لہٰذا کئی مقامات پر اختلافاتِ قراءت کا مسئلہ چھڑ جاتا ۔ توقراءت کے مدعی پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ ایک تو وہ اپنی دلیل میں مکتوبہ کتابت پیش کریں ۔ دوسرے کم ازکم دو شہادتیں لائیں یا قسم اٹھاکر کہیں کہ ہم نے فی الواقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت اسی طرح سنی پڑھی تھی اور