کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 6
’’جن لوگوں کو اس سے قبل علم دیاگیا ہے جب یہ(قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار پاک ہے۔بے شک ہمارے پروردگار کاوعدہ پورا ہوکر رہتاہے اور ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور یہ(قرآن) ان کا خشوع اور بڑھا دیتا ہے۔‘‘
آغاز اسلام ہی سے قرآن مجید کے فنی جمال اور سحر نے انسانوں کے دلوں کو مسخر کیا۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جب میں نے قرآن سنا تو مجھ پررقت طاری ہوگئی، میں رونے لگ گیا اورمیں نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘
ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے کہا:’’یہ کلام کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘
ولید بن مغیرہ قرآن مجید کا منکر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا مگر اس کے باوجود وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہوا:
’’بخدا قرآن میں شیرینی پائی جاتی ہے۔یہ تروتازہ کلام ہے۔ یہ ہرچیز کومغلوب کرلیتا ہے۔ یہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بلندتر نہیں ۔ قرآن میں جادو کا اثر پایا جاتاہے۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ ایک آدمی کو اس کے احباب و اعزہ سے جدا کردیتا ہے۔‘‘ [قرآن مجید کے فنی محاسن، ص ۵۶]
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے محبوب پیغمبرسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم((زینو القرآن بأصواتکم)) کو حرزِ جان بنا لیا۔ انہوں نے نہ صرف قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کیا بلکہ اپنے دلوں کو سماع قرآن کی لذتوں ، چاشنیوں اور حلاوتوں کاگرویدہ بنا لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ دنیوی ہی میں صحابہ نے قرآن کے صوتی آہنگ ظاہری اور باطنی حسن میں تدبرسے کام لیناشروع کردیاتھا۔ وہ قرآن کے بعد ہر طرح کی غناء سے مستغنی ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعدادنہ صرف قرآن کے حفاظ پر مبنی تھی بلکہ بہت سے صحابہ کو خدانے لحن داؤدی اور حسن جدت بھی عطافرمایاتھا جسے وہ قرآن کے صوتی جمال کو فن کا درجہ دینے کے لئے استعمال میں لا ئے۔
ہمیں ان علماء اور قرآنیات کی ماہرین سے اتفاق ہے جن کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن صرف نازل نہیں کیاگیا بلکہ جبریل علیہ السلام نے عملاً اس کی قراءت بھی سکھائی۔ ان کی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن کے نزول اور اس کی قراءت دونوں کااہتمام فرمایا وہ اپنی اس رائے کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت کو قرار دیتے ہیں ۔
﴿لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ فَاِذَا قَرَاْنَاہُ فَاتَّبِع قُرْاٰنَہ٭ ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہ﴾
’’اس کو جلدی جلدی سیکھ لینے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یادکرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہیں تو اس وقت تم اس کی قراءت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینابھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘[القیامۃ:۱۶۔۱۹]
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ(م۸۳۳ھ) قرآنی علوم اورفن قراءت کے معروف مؤرخ و محقق ہیں ۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت سے انہوں نے استنباط فرمایاہے کہ فن قراءت و تجوید منزل من اللہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید کے معانی و معارف کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں قرآن مجید کی قراءت کی بھی تعلیم دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم قراءت سے فیض یاب فرمایا تھا اور عام صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیاتھا کہ ان سے قرآن سیکھو ۔ یہ چار صحابہ عبداللہ بن مسعود، سالم مولیٰ حذیفہ،معاذ ابن جبل اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم ہیں ۔