کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 599
۴۔ عسیب: کجھور، ناریل یا پام کی شاخ کاوہ حصہ جو تنے سے متصل او رخاصا چوڑا ہوتا ہے۔ اس کو شاخ سے جدا کر کے او رخشک کر کے اس پر لکھتے تھے۔ ۵۔ أقتاب: قتب کی جمع یعنی اونٹ کے کچاوے کی چھوٹی پھٹیاں جن کا گھسنے کے بعد کھردرا پن ختم ہوجاتااوروہ لکھنے کے کام آتی تھیں ۔ ۲۔دورِصدیقی میں ۱۱ھ تا ۱۳ ھ میں قرآن کی جمع وترتیب جنگ یمامہ میں ۷۰۰حفاظ شہید ہوگئے جس سے اس شعبۂ حفاظت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خیال آیا کہ اب حفاظتِ قرآن کے دوسرے شعبہ یعنی کتابت ِ قرآن کی طرف خاص توجہ مبذول کی جائے اور قرآن کے ہی متفرق اور منتشر صحیفے جو متفرق افراد اپنے اپنے ذوق کے پیش نظر لکھتے رہے ہیں انہیں حکومت کی نگرانی میں منضبط او رمدون کرایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں ؟ یہ تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کاجذبۂ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس میں احتیاط کا پہلو۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو ایک جلد میں محفوظ کرنے اور اسے سرکاری تحویل میں رکھنے کی مصلحت سمجھائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس کے قائل ہو گئے اور اس خدمتِ کتابتِ قرآن اور اس کو ایک جلد میں بنانے کا کام زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد کیاگیا جنہوں نے مدینہ میں بیشتر وحی کی کتابت کاکام سرانجام دیا تھا۔ جب ان سے ذکر کیا گیا کہ ان متفرق اجزاء کو مرتب اور مدون کرنا چاہیے تو یہ کام انہیں پہاڑ اٹھاتے سے بھی بڑا معلوم ہوا۔ لیکن جب ان کی توجہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کے اس خاص پہلوپر دلائی گئی تو وہ تیار ہو گئے۔ اس کام کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نہایت محنت او رجانفشانی سے سر انجام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوائی ہوئی یاد داشتوں کوبھی سامنے رکھا۔ پھر ہر آیت کی تصحیح دو دوحافظوں سے بھی کراتے چلے جاتے تھے۔ اور قرآن مجید کی کل سورتوں کوقراطیس یا ایک ہی تقطیع کے اوراق پر لکھا۔ تاہم ان میں سورتوں کی ایسی ترتیب نہیں دی گئی تھی جو آج کل قرآن میں پائی جاتی ہے یہ مصحف جو بین الدفتین میں لایا گیا ، حکومت کی نگرانی میں رہتا تھا پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ مصحف الامام حضرت حفصہ6حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے پاس چلا گیا۔ [صحیح البخاري کتاب فضائل القرآن ، باب جمع القرآن] گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمع قرآن کے محرکات دو تھے۔ ۱۔ قرآن کریم کی مکتوب تحریروں کا متفرق افراد کے پاس ہونا او رمنتشر او ربکھری ہوئی صورت میں ہونا۔ ۲۔ حفاظ کاجن کے سینوں میں قرآن محفوظ تھا ،کثرت سے شہید ہو جانا ۔لہٰذا اس جمع قرآن کا مقصد محض اس کی کسی آیت یا حصہ کو ضائع ہونے سے بچانا تھا۔ دورِعثمانی ۲۵ھ تا ۳۵ھ میں قرآن کی نشرو اشاعت قرآن کی شیرازہ بندی تو دورِ صدیقی میں ہو گئی تھی، لیکن قرا ء ت کے اختلاف کا مسئلہ ابھی باقی تھا۔ قاری اور حفاظ، حکومت کی طرف سے مختلف مراکز میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ پھر جو لوگ ان