کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 598
دونوں کتابوں کو اکٹھاجلد کراتے وقت گلستان کو پہلے رکھ لے یابو ستان کو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔یہی صورت دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن کی سورتوں کو اپنے وقت میں جمع کرنے کی تھی۔ ۷۔قرآن کی حفاظت کے طریقے: قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں دوطریقے اختیارکیے گئے تھے۔ ۱۔ زبانی یاد کرنا، کرانا یا حفظ ۲۔ ضابطہ تحریر میں لانا یا کتابت قرآن ۔ ان دونوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ قرآن پر نسبتاً زیادہ زور دیا تھا اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ تھیں ۔ ۱۔ قرآن کریم مکتوب شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھایا۔ اسی اندازمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سنایا او رحفظ کروایا۔ اس طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی نہ حروف کی شکلوں ، نقاط، اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز اوقاف وغیرہ کی معلومات کی ۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ۔ ۲۔ اہل عرب کا حافظہ بہت قوی تھا لیکن پڑھے لکھے لوگ بہت کم تھے۔ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔ ۳۔ تورات ، جو لکھی ہوئی شکل میں ہی نازل ہوئی تھی، پڑھے لکھے طبقے سے ہی مخصوص ہوکر رہ گئی تھی ۔ پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔ لہذا قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں ان دونوں طریقوں کو لازم وملزوم قرار دیا گیا اور ماحول چونکہ حفظ کے لئے بہت زیادہ سازگار تھا ،اس لیے اس طریقۂ حفظ کو بالخصوص اپنایا گیا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ ﴿بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْعِلْمَ﴾ [العنکبوت:۴۹] ’’بلکہ وہ قرآن تو واضح آیات ہیں ، جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں ، جنہیں علم دیا گیا ہے۔‘‘ ۴۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم پڑھا لکھا آدمی غلطی کر جاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتایہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت زیادہ سے زیادہ سترہ مصاحف کا پتہ چلتاہے جبکہ حفاظ کرام کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی ۔ غزوۂ بئرمعونہ، جو۴ھ میں پیش آیا۔ اس میں تقریباً ستر(۷۰) حفاظ شہید ہوئے تھے۔ یہ سب حفاظ قرآن کے حفظ میں سورتوں کی موجودہ ترتیب سے آزاد تھے۔ ۸۔ قرآن کی کتابت کے لئے جن چیزوں کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ ایسی تھیں جو آفات وحوادث عالم کا زیادہ سے زیادہ مقابلہ کر سکتی ہوں ۔ کاغذ جوآج ہمیں دستیاب ہے وہ تو اس وقت معروف ہی نہ تھا ۔ قرطاس موجود تھا، لیکن پانی اور آگ اس پر اثر انداز ہوکر اسے جلد ختم کرسکتے تھے ۔لہٰذا مندرجہ ذیل پائیدار چیزوں کو اس کام کے لئے چنا گیا تھا۔ ۱۔ أدیم یارقّ: جو باریک کھال کو دباغت کے بعد لکھنے کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ میثاق مدینہ اور صلح نامہ حدیبیہ بھی اس ادیم یا چمڑہ پر تحریر ہوا تھا۔ ۲۔ نحاف: سفید رنگ کی پتلی پتلی اور چوڑی سلیٹ کی طرح کی تختیاں جوپتھر سے بنائی جاتی تھیں ۔ ۳۔ کتف: اونٹ کے مونڈھے کے پاس گول طشتری نما ہڈی، جسے خاص طریقہ سے تراشا جاتا تھا۔