کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 597
’’اللہ کی طرف سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پاک صحیفے تلاوت کرتا ہے جو مستحکم کتابوں پر مشتمل ہیں ۔‘‘
اس آیت میں کتاب کے بجائے کتب کا لفظ انہی قرآن کی سورتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ان سب سورتوں یا کتابوں کے مجموعہ کا نام قرآن ہے او روہ بھی ایک کتاب ہے۔
۳۔ کسی سورت کاکوئی حصہ جب نازل ہوتا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ بھی بتلادیتے تھے کہ یہ نازل شدہ آیات فلاں سورت کے فلاں مقام پر پڑھی جائیں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہٗ ﴾ [القیامۃ:۱۷]
’’اس وحی کو جمع کرنا اور پڑھنا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
لمبی سورتوں کی تنزیل کی یہ صورت تھی کہ اگر اس کا کچھ حصہ ایک سال نازل ہواتو اس کا کچھ حصہ کئی برس بعد نازل ہوا اور درمیان میں دوسری سورتوں کے بھی کچھ حصے نازل ہوتے رہے۔ لہٰذا ہم قرآن کو بحیثیت مجموعی سورتوں کے لحاظ سے تو یہ ترتیب نزول نمبر دے سکتے ہیں ۔ مگر آیتوں کے لحاظ سے پورے قرآن کی ترتیب نزولی قائم کرنا منشائے الٰہی کے خلاف بھی ہے اور نا ممکن بھی، کیونکہ ایسی صورت میں ان کئی ایک سورتوں کے ، جو کسی ایک معین عرصہ کے درمیان نازل ہور ہی تھیں ، مضامین گڈ مڈ ہو جاتے۔
۴۔ اَحادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کامعارضہ(یا جسے موجودہ زمانہ کے حفاظ کی اصطلاح میں ’دور‘ کہا جاتا ہے ) کیا کرتے تھے۔ اور یہ معارضہ ماہ رمضان کے پورے مہینے میں ہوتاتھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
أن جبریل کان یلقاہ فی کل لیلۃ فی شہر رمضان حتی ینسخ یعرض علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم القرآن‘‘ [صحیح البخاري کتاب التفسیر،باب کان جبرایل یعرض القرآن....]
’’رمضان کے مہینے کی ہر رات کو جبرائیل علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور قرآن کامعارضہ کرتے یہاں تک کہ یہ مہینہ گزر جاتا۔‘‘
اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ،یہ معارضہ دوبار ہوا۔ ایک دفعہ تو ماہ رمضان(۱۰ھ) میں اور دوسری باری تنزیل وحی کے خاتمہ(سورۃ النصر کی تنزیل ) پر اور یہ دوسرا معارضہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجل کا پیغام تھا۔ [صحیح البخاري،حوالہ ، ایضا] اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معارضہ ہر سال اتناہی ہوتا تھا جتنا کہ قرآن نازل ہو چکا ہوتا۔ البتہ آخری سال میں دوسری بار جو معارضہ ہو اتووہ پورے قرآن حکیم کا ہوا تھا۔
۵۔ نماز کے دوران یا تلاوت کے وقت یہ کوئی پابندی نہ تھی کہ فلاں سورۃ پہلے پڑھی جائے او رفلاں بعد میں ۔ البتہ یہ پابندی ضرور تھی کہ آیات کا ربط ونظم، جو بذریعہ وحی مقرر کیا گیا تھا، اس میں کسی قسم کی تقدیم وتاخیر نہیں کی جاسکتی۔
۶۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہر شخص بلا لحاظ تقدم وتاخیر قرآن کریم کی مختلف سورتوں کو جمع کرنے اور مصحف کی شکل دینے میں بھی آزا د تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے ایک ہی مصنف کی چند کتابیں ہیں جنہیں کوئی شخص ایک جلد میں اکٹھی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سلسلہ میں آزاد ہے کہ جونسی کتاب چاہے پہلے رکھ لے اور دوسری بعد میں ۔ اس سے نہ تو تصنیف کی ذات پر کوئی حرف آ سکتا ہے نہ مضامین میں ہی کچھ فرق پڑ سکتا ہے ۔ مثلاً شیخ سعدی رحمہ اللہ کی دو کتابیں ہیں ، گلستان اور بوستان۔ان دونوں کتابوں کی الگ الگ او رمستقل حیثیت ہے۔ اگر ایک شخص ان