کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 596
میں یا اسی طرح کے دوسرے مصاحف میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان مصاحف میں بیان شدہ اختلافات کا کثیر حصہ ایسے ہی سہو وخطا کے امکانات پر مشتمل ہے۔ پھر آپ ان روایات کو وضعی کیوں قرار دیتے ہیں ؟ ۳۔ حکومت نے جو نسخے تیار کروائے تھے ، تو ان میں بھی سہو وخطا کا امکان تھا، کیونکہ یہ انسانوں ہی نے لکھے تھے۔ کتاب المصاحف والوں نے ایسی ہی اغلاط کو اختلاف کہہ کر اگر پیش کیا تو آخر کون ساجرم کیا؟ جسے طلوع اسلام اچھال اچھال کر مہیب اِختلافات کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ ۴۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ نسخے اس لیے مختلف مراکز میں بھیجے تھے کہ ’’ لوگ ان کے مطابق اپنے اپنے نسخے مرتب کر لیں ۔‘‘جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس جو نسخے پہلے سے موجود تھے، وہ اس ترتیب کے موافق نہیں تھے جو ترتیب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دی تھی یا جو امت کے نزدیک مستند نسخہ قرار پائی۔ اگر یہ ترتیب پہلے سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود دے چکے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایت دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کہ لوگ اب اس ’امام‘ کے مطابق اپنے نسخے مرتب کر لیں ۔ طلوع اسلام کے نزدیک بھی مناسب بات یہی ہے کہ ’’ایسے سابقہ تمام نسخوں کو تلف کر دیا جائے جو اس امام کے مطابق نہ تھے‘‘ اب یہی مناسب بات جب بھی روایت میں مذکور ہوتی ہے تو طلوع اسلام کے ہاتھ گویا ایک نیا شغل آجاتا ہے او رمزے لے لے کر اسے اچھالنے کی کوشش کرتا ہے کہ مثلاً عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے صحیفے جلانے سے انکار کر دیا تھا یا مثلا ً مروان نے حضرت حفصہ6والے نسخے کو جلا دیا ‘‘ وغیرہ۔ قرآن کی موجودہ شکل تک کے مختلف مراحل اب بیش تر اس کے کہ ہم قرآن کی جمع وتدوین پر ’ طلوع اسلام‘ کے اعتراضات اور ان کا جائزہ پیش کریں ۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تمام مراحل کا ذکر کر دیا جائے جن سے گزر کر قرآن مجید موجودہ شکل وصورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ ۱۔ دورِ نبوی ۱ نبوت تا ۱۱ھ ۱۔ طوالت کے لحاظ سے قرآن کریم کی سورتوں کی تین قسمیں ہیں : ۱۔ سبع طوال: یعنی سورۃبقرۃ سے لے کر اعراف تک چھ، اور ساتویں سورۃ کہف ۲۔ مئین: وہ سورتیں جن میں آیات کی تعداد سو سے زائد ہے۔ ۳۔ مثانی:وہ سورتیں جن میں آیتوں کی تعداد سو سے کم ہے ۔چھوٹی چھوٹی سورتیں تو بالعموم یکبارگی نازل ہوتی رہیں جو تیسویں پارہ کے آخر میں ہیں ۔ لیکن بڑی سورتیں وقفوں کے ساتھ نازل ہوتی رہیں ۔ ۲۔ ہر ایک سورت خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو، اسے بھی مفصل ہی کہا گیا کیونکہ وہ بھی اپنے مضمون میں ہر پہلو سے مکمل ہے۔ گویا قرآن کی ہر ایک سورت اپنے مقام پر ایک مستقل مضمون پمفلٹ یاکتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس لحاظ سے سورت اخلاص اور سورۃ فاتحہ بھی ایسے ہی ایک الگ کتاب ہے جیسے سورۃ البقرۃ ایک الگ اور مستقل کتاب ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃٌ فَیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ﴾ [البینۃ:۳۲]