کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 595
کے لحاظ سے لکھے ہوئے نسخے موجودتھے اور دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں لاکھوں افراد سے یہ پوچھا کہ ’’ کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچادیا؟ ‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ، ’ہاں !‘ اسے ہی کہتے ہیں ’سوال گندم جواب چنا۔‘ اپنے دعویٰ کی تردید آگے چل کر ’طلوع اسلام ‘ اپنے اس دعویٰ کی خود ہی تردید فرما دیتا ہے۔ چنانچہ ’قرآن کے لاکھوں نسخے‘ کے ذیلی عنوان کے تحت درج ہے کہ: ’’امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ خلیفۂ اول کے زمانہ میں کوئی شہر ایسا نہیں تھا جہاں لوگوں کے پاس بکثرت قرآن کریم کے نسخے نہ ہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کتاب عظیم کے لکھے ہوئے نسخے ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔ ‘‘ [طلوع اسلام:فروری ۱۹۸۲ء،ص۱۲] اَب دیکھیے اس شمارہ میں تویہ(قرآن ) بعینہٖ اسی شکل میں اور ترتیب میں ، جس میں یہ اس وقت ہمارے پاس ہے،لاکھوں مسلمانوں کے پاس موجود اورہزاروں سینوں میں محفوظ تھا‘‘ اور ص ۱۶ پر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کے نسخے ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔‘‘ جامع قرآن کون؟ سوال یہ ہے کہ اس وقت جو قرآن کریم ہمارے پاس موجود ہے ، اس کو جمع کس نے کیا تھا؟ آیا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع فرمایا تھایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ؟ ’’طلوع اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس کو جمع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کیا تھا اور جامع قرآن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مشہور ہیں ، تو یہ باتیں غلط ہیں ۔ چنانچہ اپنے اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: ’’ ضمناً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو جامع القر آن کہا جاتا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں ۔ آپ جامع القرآن نہیں تھے بلکہ دیگر خلفاء کی طرح ناشر قرآن ہی تھے۔ انہوں نے البتہ اس کا اہتمام ضرور کیا کہ کہیں کوئی نسخہ ایسا نہ رہے جو ان مستند اورمصدقہ نسخوں (وہ سات یا آٹھ نسخے جو آپ رضی اللہ عنہ نے مرتب کر ا کر مختلف دیار وامصار میں بھیجے تھے) کے مطابق نہ ہو اور ایسا کرنا نہایت ضرور ی تھا ۔لوگوں نے جو نسخے اپنے اپنے طور پر مرتب کیے تھے ان میں سہو اور خطا کا امکان ہو سکتا تھا۔ اس زمانے میں چھاپے خانے تو تھے نہیں کہ حکومت اپنی زیرنگرانی قرآن کریم کے لاکھوں نسخے چھپوا کر تقسیم کر دیتی اور اس طرح غیر مصدقہ نسخے باقی نہ رہتے۔ اس کے لیے یہی انتظام کیا جا سکتا تھا کہ مصدقہ نسخے مختلف مراکز میں بھیج کر ہدایت کر دی جاتی کہ ان کے مطابق اپنے لیے نسخے مرتب کر لیں اور اگر کسی کے پاس یا کوئی ایسا نسخہ ہو جو ان کے مطابق نہ ہو،سے تلف کر دیا جائے تاکہ ایسے نسخے کی اشاعت نہ ہونے پائے جس میں کوئی غلطی ہو۔‘‘ [ایضا:ص۱۲] اس اقتباس سے مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں : ۱، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی دوسرے خلفاء کی طرح ناشرِ قرآن ہی تھے او ربحیثیت ناشرِ قرآن ان کاکا رنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سات یا آٹھ نقول تیار کروا کر مختلف مراکز میں بھیجی تھیں ۔یہ تو ان کا بحیثیت ناشر کارنامہ تھا ۔پھر یہ بھی تو بتلانا چاہیے تھا کہ دوسرے خلفاء نے بحیثیت ناشرِ قرآن کیا کارنامے سر انجام دئیے تھے؟ ۲۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ کام کرنا اس لیے’’ نہایت ضروری تھا کہ لوگوں نے جونسخے اپنے اپنے طور پر مرتب کیے تھے ان میں سہو وخطا کا امکان ہو سکتا تھا۔‘‘ اور یہی وہ سہو وخطا کا امکان تھا جسے کتاب المصاحف لابن ابی داؤد