کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 593
نہیں پہنچی جس سے روز روشن کی طرح یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حضرت زُہری رحمہ اللہ قطعی سنی ہیں ۔ (ذ) :کیا حدیث جمع القرآن۔ معاذ اللہ۔ موضوع ہے؟ ۲۹۔ ناقد نے حدیث جمع القرآن کو موضوع بتایا ہے۔ اس کی بابت اتنا ہی عرض ہے کہ چلئے! اگر آپ سنی ائمہ حدیث سے اتنے ہی ناراض ہیں کہ وہ سب آپ کے یہاں قطعاً درخور اعتناء نہیں بلکہ سب کے سب مطعون و قابل تنقید ومجروح ہیں اور اس حدیث جمع القرآن کو صحیح سمجھنے میں ۔خاکم بدہن۔ سب ہی حضرات محدثین نے غلطی کی ہے تو باوجودیکہ آپ بزعم خود سنی ہیں مگر بایں ہمہ طبری رافضی(جو فی الواقع سنی ہیں )کی مدح سرائی میں آپ رطب اللسان ہیں اور ستہ احرف کی متروکیت کے متعلق ان کے قول سے آپ نے بھرپور استدلال کیا ہے کہ موصوف نے جمع عثمانی میں چھ حروف کے مرفوع و منسوخ و متروک ہوجانے کا قول کیا ہے(اگرچہ اس کی اصل صورت حال اس کے برخلاف ہے جو آگے اپنے موقع پر بیان ہوگی) بس اتنی درخواست ہے کہ طبری رحمہ اللہ رافضی ہی کی بات کو تسلیم کرکے آپ جمع قرآن کی حدیث پر ایمان واعتقاد لے آئیے۔ وگرنہ طبری رحمہ اللہ کے قول سے استدلال کو ترک کردیجئے۔ فتأمل کراتٍ بعد مراتٍ ینقلب إلیک البصر خاسئاً وہو حسیر (ح): راوی کی عدالت کے ثبوت کا ایک ذریعہ شہرت و استفاضہ اور اشتغال علم بھی ہے ۳۰۔ مقدمہ ابن الصلاح اُصول حدیث کی مشہور کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں : ’’عدالۃ الراوی تارۃ تثبت بتنصیص العدلین علی عدالتہ وتارۃ تثبت بالاستفاضۃ فمن اشتھرت عدالتہ بین أھل النقل أو نحوھم من أھل العلم وشاع الثناء علیہ بالثقۃ والامانۃ استغنی فیہ بذلک عن بینۃ شاھدۃ بعدالتہ تنصیصاً ھذا ھو الصحیح فی مذھب الشافعی وعلیہ الاعتماد فی فن أصول الفقہ‘‘ [ص:۴۰] ’’یعنی راوی کی عدالت کبھی ثابت ہوتی ہے کہ دو عادل اس کی عدالت پر تصریح کردیں اور کبھی ثابت ہوتی ہے ساتھ شہرت اور استفاضہ کے۔ پس جس کی عدالت اہل علم کے درمیان مشہور ہو اور اس پر ثقہ ہونے کی اور امین ہونے کی تعریف شائع ہو تو وہ مستغنی ہوتا ہے ایسے بینہ سے جو اس کی عدالت پر صراحتہً شاہد ہو یہی صحیح ہے مذہب شافعی میں اور اسی پر اعتماد ہے۔ فن اصول فقہ میں ، بلکہ حافظ ابوعمر بن عبدالبر رحمہ اللہ نے تو اور توسیع کرکے یہاں تک کہہ دیا ہے۔ ‘‘ ’’کل حامل علم معروف العنایۃ بہ فھو عدل محمول فی أمرہ ابداً علی العدالۃ حتی یتبین الجرحۃ....الخ‘‘ [مقدمہ، ص۴۰] ’’یعنی ہر صاحب علم جس کا اشتغال علم کے ساتھ معروف ہو عادل ہے اور ہمیشہ عادل قرار دیا جاوے گا جب تک اس پر جرح ثابت نہ ہو۔ ‘‘ [آثارِ خیر، ص۲۴۲] ٭٭٭