کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 592
شاذہ کی رعایت کو ترک کردیا گیا۔
ثالثاً: آگے ان ساتوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی خاص خاص اختلافات جو تلقین نبوی سے پڑھے اور محفوظ کیے تھے ان ائمہ قراءات کو بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑھائے۔ بعض ائمہ قراءات نے ان ساتوں میں سے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم سے پڑھا بس یہی وہ مرحلہ ہے جس میں بعض لغات کا بعض لغات میں اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منقول فرش الحروف کا دوسرے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منقول فرش الحروف کے ساتھ باہم انضمام و تداخل و اجتماع و تشارک شروع ہوا اور اسی بنیاد پر اور انہیں منقول وجوہ کی روشنی میں آگے آئمۂ قراءات نے ذاتی و شخصی طور پر خاص خاص مختلف الانتخاب ترتیبات اور متعدد اختیارات کی تدوین کی اور یہی اختیارات آگے قراءات کے نام سے موسوم ہوئے۔
نتیجہ یہ کہ مروّجہ قراءات عشرہ کی ترتیب اس طریقہ سے ہوئی کہ مصاحف عثمانیہ کے متعدد مقری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین نے اور تابعین سے تبع تابعین نے اور ان سے ائمہ مشہورین نے احرف سبعہ کی روشنی میں متعدد قراءات حاصل کیں ، کیونکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے احرف سبعہ کو اپنے مابعد کے لوگوں تک نقل کیا تو وہ لغات باہم متداخل اور مخلوط ہوگئیں حتیٰ کہ متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے اخذ کرنے والا قاری کچھ حصہ ایک صحابی کی تلقین کردہ لغت کے مطابق اور کچھ دوسرے صحابی کی تلقین کردہ لغت کے مطابق پڑھنے لگا اسی کے نتیجہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اَخذ کردہ قراءات متعدد ہوگئیں مگر یہ سب اَحرف سبعہ سے خارج قطعاً نہیں ۔
تو یہ سب قراءات کثیرہ منتشرہ، نتیجہ ہیں نزول القرآن علیٰ سبعۃ احرف کا، ہر قراءت کی ترتیب فقط ایک ہی لغت عربیہ کے لحاظ سے نہیں کہ پورا قرآن من اوّلہٖ الیٰ آخرہٖ فقط اُسی ایک ہی لغت کے مطابق پڑھا جاتا ہو اور دوسری لغات میں سے کسی لغت کا کوئی لفظ بھی قطعاً اس میں شامل نہ ہو ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہر قراءت میں سب کی سب لغات عرب کا اشتراک و تداخل موجود ہے۔
(و) : کیا ابن شہاب زُہری رحمہ اللہ ، بقول ناقد۔ معاذ اللہ شیعہ ہیں ؟
۲۸۔ حضرت ابن شہاب زہری رحمہ اللہ ، حدیث پاک کے ’اوّل المدونین‘ ہیں جنہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حکم سے سب سے پہلے احادیث کو مدون فرمایا، خود زہری فرماتے ہیں :’’أمرنا عمر بن عبدالعزیز بجمع السنن فکتبناھا دفتراً دفتراً‘‘ [أخرجہ ابن عبد البر فی جامع بیان العلم] ’’أوّلُ من دوّن العلم ابن شہاب‘‘ [قالہ،السیوطی فی الوسائل إلی معرفۃ الاوائل] کیا خلیفۂ راشد کو زہری رحمہ اللہ کی شیعیت کا علم نہ ہوسکا؟ اگر نہیں تو خود خلیفۂ راشد پر حرف آتاہے۔ ابن شہاب زُہری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں امام مالک رحمہ اللہ ، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ، اوزاعی رحمہ اللہ ، لیث بن سعد رحمہ اللہ جیسے کبار ائمۃ شامل ہیں ان حضرات کو بھی علم نہ ہوسکا کہ ہمارے استاذ والعیاذ باللہ شیعہ ہیں ۔ ایسے ذمہ دار ائمہ امت کو اپنے استاذ کے حالات کا زیادہ علم ہوسکتا ہے یا آپ جیسے علامہ آخرالزمان کو؟ آج اگرکسی سنی عالم کے متعلق علم ہوجائے کہ وہ فلاں شیعہ شیخ سے علم حدیث حاصل کرتا ہے تو سنی حضرات اس عالم کا سخت ایکشن لینے پرتُل جائیں گے اگر زُہری آپ کے بقول شیعہ ہوتے تو لامحالہ اُس زمانۂ خیر و رُشد کے لوگوں کواس بات کا علم ہوتا اور وہ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ پراعتراض کا طوفان کھڑا کردیتے کہ یہ ایسے شیعہ محدث سے حدیثیں حاصل کررہے ہیں مگر اس قسم کی کوئی بات پایہ ثبوت تک