کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 584
نیز فرماتے ہیں ان دونوں کا ابرعلم یثرب کی پہاڑیوں سے اُٹھا اور کوفہ کی وادیوں پربرسا۔ ان دونوں آفتاب وماہتاب نے ریگستان کوفہ کے ذرّہ ذرّہ کو چمکا دیا تھا۔ [آثارِ خیر، ص ۵۰۱]
۱۱۔ یاروں نے امام صاحب سے عناد کے سبب ’کوفہ‘ جیسے مرکز علم و ہدایت کے متعلق عجیب عجیب کہاوتیں گھڑ لیں ، حالانکہ یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے اسے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ صحابی نے بسایا، فقیہ ِ اُمت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو وہاں کا معلم مقرر کیا، ہمارے نسلی جد بزرگوار سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کواپنا حکومتی مرکز قرار دیا۔ہزاروں صحابہ و تابعین اور ہر علم و فن کے ماہرین کا یہ مرکز رہا، لیکن ’ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بغض‘ میں بات کو اس حد تک پھیلایا گیا کہ دیانت سرپیٹ کر رہ گئی۔ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خاندان سے عقیدت کے جھوٹے دعوے داروں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ہر دو فرزندوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے جو ’سلوک‘ کیا اس نے’کوفہ کو ناپسندیدہ شہر‘ قرار دے دیا اور جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا اور کسی نے نہ سوچا کہ بابل میں نمرود تھا تو ابراہیم علیہ السلام بھی تھے۔ مصر میں فرعون کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام اور مکہ و مدینہ میں ابوجہل، ابولہب، ولید، ابوطالب، ابن اُبی اور ایسے ہی لوگوں کے ساتھ محمد عربی صلوات اللہ تعالیٰ علیہ و سلامہ اور ان کے ہزاروں ہزار جانثار رُفقاء بھی تھے۔ بہرحال حقانی صاحب نے امام رحمہ اللہ کی تابعیت اور کوفہ کی مرکزیت کو خوب نکھارا۔ [حقانی کتابیں ، ص۳۴]
(ج) : موالی و اَعجام اور قراء سبعہ کا دینی و علمی مرتبۂ و مقام
۱۲۔ قراء سبعہ اور اُن کے رُواۃ میں سے اکثر حضرات عجمی النسل آزاد کردہ غلام ہیں ۔مگر اُنہیں قراءت کی امامت کا مقام رفیع عطا ہوا۔ایسی عجمیت اور غلامی پر لاکھوں عربیتیں اور کروڑوں آزادیاں قربان ہیں ۔ ہزاروں نہیں ایسے خوش نصیبوں کی تعداد لاکھوں سے بھی متجاوز ہوگی جو میدان جہاد میں گرفتار ہوکر دارالاسلام لائے گئے اور اسلامی معاشرے کی صداقت وامانت خلوص و للہیت، اعلیٰ اخلاق و اعمال کو دیکھ کر بصدق دل حلقۂ بگوش اسلام ہوگئے۔ جنہیں کفر کی ظلمتوں ، جہنم کی وادیوں سے زبردستی کھینچ کرجنت کے گلزاروں میں داخل کردیاگیا۔ اسلامی معاشرے نے نہ صرف انہیں ایمان و اسلام کی لازوال دولت سے نوازا، بلکہ قرآن و سنت کے علوم تقویٰ و طہارت، اور وہ مثالی و اعلیٰ اخلاق و اعمال بھی دیئے جن کی بنا پر اُمت مسلمہ کی علمی وروحانی قیادت اور اِمامت بھی ان پابند سلاسل ہوکر آنے والوں کونصیب ہوئی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تعجب کرتے ہیں ایسے لوگوں پر جنہیں زنجیروں کے ساتھ جنگ کی طرف کھینچا جارہا ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کون ہیں آزاد شدہ غلام جن کی امانت و عظمت اور ولایت پر اُمت کااجماع ہے۔عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کون تھے۔آزادشدہ غلام جن کے سامنے ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسے امام الائمہ نے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
اس حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لیے امام زہری رحمہ اللہ اور خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ کاایک اہم مکالمہ ملاحظہ ہو:
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں ایک مرتبہ عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ کے پاس گیا اس نے مجھ سے سوالات کئے، پوچھا تم کہاں سے آئے ہو، میں نے کہا مکہ مکرمہ سے۔
عبدالملک: مکہ سے تمہاری روانگی کے وقت اہل مکہ کا سردار کون تھا؟