کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 581
ہوتاہے۔[کما فی الشامیۃ :۲/۳۲۳] ’’فالعالم العجمی یکون کفوًا للجاھل العربی والعلویۃ لأن شرف العلم فوق شرف النسب‘‘باقی ملاحدہ و روافض کوفہ نے اصل منزل اختلاف قراءت کے مٹانے کی سرتوڑکوشش کی اور اس سلسلہ میں انہوں نے کئی من گھڑت جعلی الفاظ بھی شامل قرآن کرناچاہے، مثلا بولایۃ علی وغیرہ مگر وہ نہ چل سکے۔اُن کی تحریک، مخالفت قراءات و سعی تحریف قرآن اور الحاق الفاظ موضوعہ مخترعہ کی تھی۔اختلاف قراءات جومدینہ منورہ میں منزل من اللّٰہ ہوا ہے۔روافض اس کو کیوں کر پھیلانے لگے تھے؟ پانچویں نمبر پر آپ سے یہ بھول ہوگئی کہ قراءات متواترہ کو آنجناب نے غیر محفوظ قرار دیاہے۔ قراءات میں حرکات وسکنات، حروف و کلمات کی تبدیلی تو بعد کی بات ہے آج تک اختلاف قراءت سے متعلق ادائی چیزوں کی منقولہ آوازیں بھی محفوظ ہیں ۔ اِمالہ کس طرح ہوتاہے؟اس کی کیاآواز ہے؟ باریک حرف کی باریکی کی آواز کیسی ہوتی ہے؟ اظہار کی آواز کیاہے؟ غُنّہ کی صوت منقول کیاہے؟ تسہیل کی آواز کس طرح ہوتی ہے؟ آج کوئی ان آوازوں میں ہی کسی قسم کی تبدیلی و غلطی و تحریف کرکے نہیں دکھاسکتا ہے تو کیا ازمنۂ متقدمہ سالفہ اس پُرفتن دور سے بھی گئے گزرے ہوگئے تھے کہ اُن ادوار مبارکہ میں آوازیں تو کجا حرکات و سکنات حروف و کلمات تک میں بھی تبدیلی ہوگئی اور تمام علماء، قراء، افاضل اور اکابر ائمہ مجتہدین حضرات مجددین تماشا دیکھتے رہ گئے؟ چھٹے نمبر پر آپ سے یہ انتہائی سنگین غلطی سرزد ہوئی کہ سبعہ احرف والی متواتر و قطعی الثبوت حدیث کو معاذ اللہ موضوع بتایا ہے؟معلوم نہیں آپ نے موضوعات کی کون سی کتاب میں یہ بات ملاحظہ کی ہے۔ واقعی چیز کو غیر واقعی بنا دینا دن کو رات کہنے کے مترادف ہے۔کسی حوالہ سے تو اس حدیث کی موضوعیت یا کم از کم اس کا ضعف ہی آپ نے ثابت کرنا تھا تاکہ آپ کے مطالعہ کی وسعت کی داد دی جاتی،مگر یہ تاقیام قیامت ناممکن ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ میرے پاس اس بات کے دلائل قطعیہ موجود ہیں کہ دنیا میں مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ نام کا کوئی شہر ہی موجود نہیں ہے۔ ایسا شخص یقیناً دیوانہ اور مؤوف الدماغ ہی کہلائے گا۔ ناقد کے تمام شبہات کا عمومی اور کلُی جواب یہ ہے کہ اختلافِ قراءت قطعی الثبوت متواتر روایات و نقول اور اجماع و تعامل اُمت سے ثابت ہے اور یہ تمام شبہات محض ظنیات و قیاسات اور عقلیات کے باب سے ہیں اور قطعی الثبوت کے مقابلہ میں ظنی معقول، لاشئ محض کے درجہ میں ہے۔ ان تمام شبہات کی بنیادبلکہ ناقد کی پوری تنقیدی ذہنیت کی بنیاد حسب ذیل بارہ اصول پرقائم ہے ۱۔ شذوذ و تفرد ۲۔ حدوث و ابتداع ۳۔ تغلیط کل اُمت وتفریق جمیع ملت ۴۔ تجریح وطعن جمیع سلف بمصداق حدیث یطعن آخر ھذہ الامۃ أولھا ۵۔ فتنہ پردازی بقرب یوم القیامۃ بمصداق خالف تعرف(مخالفت کرو۔پہچانے جاؤ گے) ۶۔ تخریب وہدم اَحادیث صحیحہ بمجرد الرأی والقیاس ۷۔ تخریب و ہدم اختلافات قرآنیہ منزلہ من اللّٰہ بمجرد الہوی النفسانی ۸۔ محض عقلی و قیاسی اٹکل پچو باتوں کی بنیاد پر حقائق واقعیہ کو مسخ کرکے غیر واقعی امور کو واقعی اور واقعی کو غیر واقعی