کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 579
ہم نے کتاب ہذا میں ’اختلاف قراء ات‘ اور ’سبعہ احرف‘ کے متعلق چند جدید شبہات کے بفضلہٖ تعالیٰ تشفی بخش اور دندان شکن جوابات دیئے ہیں ۔ جس ناقد نے یہ شبہات عائد کیے ہیں اُس نے سبعہ احرف جیسی عظیم حدیث متواتر تک کو موضوع کہہ دیا ہے گویا اُس نے اس حرکت عظیمہ سے پورے اسلاف اُمت پر سے اعتماد اٹھا دیا۔ کوئی ’صحیح العقیدہ سنی مسلمان‘ جو ایک شمہ بھر بھی علم و شعور رکھتاہوتا ایسا قول کرنے کی قطعاً جرأت و بیباکی نہیں کرسکتا۔ یہ قول صرف اُسی جاہل مطلق سے سرزد ہوسکتاہے جس کو ایک شمہ بھی علم حاصل نہ ہو مگر ناقد تو علامۃ الزمان اور ثانی مجدد الف ثانی کے خواب دیکھ رہے ہیں پھرنہ معلوم! اُن سے ایسا جاہلانہ قول کیونکر صادر ہوگیا؟ جناب ناقد!سب سے پہلے تو آپ سے یہ لغزش ہوئی کہ فن قراءت کے رجال کو آپ نے حدیث کے رجال پر قیاس کیا ہے باوجودیکہ دونوں میں بون بعید ہے کسی متواتر چیزکے رجال سند سے بحث مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ وہ محض ثانوی و تائیدی درجہ میں ہوتی ہے۔ دراصل وہ متواتر چیز قطعی الثبوت ہی رہے گی اگر کسی جگہ سند میں کوئی سقم ہوگاتو وہ قطعی مضر و قادح نہ ہوگا بشرطیکہ واقعتاًسقم ہو۔ایسا نہ ہو احمد بن یزید الحلوانی المقری رحمہ اللہ قالون رحمہ اللہ [لسان المیزان: ۱/۴۹۳]کی عبارت کے باوجود حلوانی کو قالون کاشاگرد ماننے سے انکار ہو یا اصبھانی ابوبکر رحمہ اللہ راوئ ورش رحمہ اللہ کو قتیبہ بن مہران اصبھانی رحمہ اللہ شاگرد کسائی رحمہ اللہ سمجھ کر یہ دعویٰ کردیاجائے کہ اصبہانی رحمہ اللہ اوّل تو کہیں بھی ورش رحمہ اللہ کے شاگردوں میں نہیں بلکہ اصبہانی رحمہ اللہ کے استاد تو کسائی رحمہ اللہ ہیں ۔ یا یہ کہہ دیا جائے کہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ المولود ۴۵ھ بوقت وفات عبداللہ بن السائب رحمہ اللہ المتوفی ۶۵ھ کمسن تھے باوجودیکہ حساب سے اُس وقت ابن کثیر رحمہ اللہ کی عمر ۲۰ سال کی بنتی ہے۔بیس سالہ نوجوان کو کمسن کہنا ناقد ہی کی قلم کاکرشمہ ہے۔ جو شخص ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی عربی عبارت کے ترجمہ اورمطلب میں نحوی ولغوی و سیاقی اغلاط کا مرتکب ہو کر اصل مقصد ہی نہ سمجھ سکے اور اناپ شناپ باتیں ہانکتا رہے اور الداری کا ترجمہ ’’رے کا رہنے والا‘‘ کرے اس کی علمی قابلیت عقل سے وراء اور غالبا ً علم لدُنی و وہبی ہی کی کوئی خاص قسم ہے۔ حضرت علامہ ناقد کا ایک عجیب لطیفہ یہ ہے کہ حضرت کو یہی علم نہیں کہ بسا اوقات مصنفین اپنی کتب کے انتساب کی مزید صحت ووثاقت کے لیے اپنے آپ کو غائب کے صیغہ سے جابجا ذکر کرتے ہیں ابن جریر طبری رحمہ اللہ تفسیر طبری میں متعدد مقامات پر قال ابوجعفر رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ سنن ابی داؤد کا قال أبوداؤد تو خوب ہی معروف ہے، طیبۃ النشرکے شروع میں محقق ابن الجزری رحمہ اللہ قال محمد ھو ابن الجزری فرما رہے ہیں ۔ خود قرآن کریم میں ﴿وَقاَلَ اللّٰہ لاَتَتَّخِذُوْا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ﴾ جیسے مواقع میں ذات الٰہی بصیغۂ غائب مذکور ہے۔ ایسی صور ت حال میں جناب ناقد، تیسیر میں جابجا قال ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ کے تذکرہ سے یہ نتیجہ کس بنیاد پرنکال رہے ہیں کہ یہ دانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ہی نہیں ۔ ناقد نے ترجمہ عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ کے تحت وقال الدانی راوی عنہ القراءۃ عرضاً نافع بن أبی نعیم [تہذیب التہذیب :۲/۵۶۲] کی عبارت میں عرضاً کا ترجمہ زبانی سن کر حاصل کرنے کا کیا ہے جبکہ اس کا صحیح ترجمہ زبانی پڑھ کر حاصل کرنے کا ہے، واقعی ایسی قابلیت قابل صد آفریں ہے۔ علاوہ ازیں فن قراءات کے رجال پر تبصرہ کرتے وقت رجال قراءت کی کتب زیر مطالعہ رکھنا ضروری تھا۔ تہذیب التہذیب، لسان المیزان وغیرہما درحقیقت رجال حدیث کی کتب ہیں ۔ بعض قراء محدثین کا تذکرہ ضمناً و تبعاً آگیاہے اور وہ بھی صرف اُن کی شان تحدیث کی حیثیت سے، فن رجال قراءت کی اصل کتب معرفۃ القراء