کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 572
میں کسی اہم پیش رفت کا زینہ قرارا دیا جاسکے، لیکن اسکے باوجود اُن قدیم اوراق پر اپنے پہلے سے طے شدہ نتائج کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن اپنے آپ کو مبین(واضح) کہتاہے، لیکن اگر آپ اس پر نظر ڈالیں تو آپ اس کے ہر پانچویں جملے میں غیر معنویت کا مشاہدہ کریں گے، بہت سارے مسلم سکالرز اورمستشرقین بھی آپ کو بتائیں گے ، حقیقت یہی ہے کہ قرآنی متن کا پانچواں حصہ بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ترجمہ کرتے وقت روایتی اضطراب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر قرآن خود عربی زبان میں ہی نہیں سمجھا جاسکتا تو اسکا ترجمہ کہاں ممکن ہوگا، لہٰذا قرآن کا اپنے بارے میں بار بار ’ مبین‘ کہنا قطعی طور پر صحیح نہیں ۔(۱۳۱)
٭ نیز اوپر ذکر کئے گئے اختلافات ، سورتوں اور آیات کی ترتیب میں اختلافات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ قرآن پیغمبر کی زندگی میں حتمی شکل میں لکھا ہوا مروّج نہ تھا۔(۱۳۲)
قارئین ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ بائبل کے ماننے والوں کی یہی وہ بنیادی خواہش ہے جو گذشتہ ایک صدی سے مختلف طریقوں سے اظہار کے راستے تلاش کر رہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو بھی بائبل کے بالمقابل لاکھڑا کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ جس طرح تاریخی اعتبار سے بائبل لاتعداد تبدیلیوں اور ارتقاء ات کا سامنا کرتی رہی ، مسلمانوں کے قرآن کو بھی وقت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ لفظی و معنوی تغیرات و ارتقاء ات کا ملغوبہ قرار دیا جاسکے۔
Puinاس حوالے قلوا(قالوا)، قل(قال)، قلت(قالت) ، کنوا(کانوا)، سحر(ساحر)،اور بصحبکم(بصاحبکم)جیسی مثالیں پیش کرتا ہے، اگرچہ Puinیہ سمجھتا ہے کہ ان الفاظ کا تلفظ اور ادائیگی الف کے ساتھ ہوتی ہے تاہم یہ رسم ،شبہات کو جنم دیتا ہے، وہ اباؤکم ، اور ابوکم ، بلحق(بالحق)اور کلجواب(کالجواب) جیسی رسم کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔(۱۳۳)
ٹوبی لسٹر Toby Lesterنے Puinکی تحقیقات کو کافی تفصیلی بحث کرتے ہوئے قرآنی علوم اور اس کے متن میں ارتقاء کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کے طور پراس ضمن میں اپنے مشہورِ زمانہ مقالہ" What is the Koran?" میں لکھتا ہے کہ ان صنعانی مخطوطات پر Puinکی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں ارتقائی عمل جاری رہا ہے چنانچہ اسکے بقول موجودہ قرآن اس طرح نہیں ہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کے پاس تھا ۔ بلکہ یہ قرآن اسکی ترقی یافتہ شکل ہے۔(۱۳۴)
Puinکے آرٹیکل میں جو تضادات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار درج ذیل نکات میں کیا جاسکتا ہے:
۱۔ میونخ یو نیورسٹی میں ۴۲۰۰۰ قرآنی مصاحف کو جمع کر کے ان میں باہمی تقابل کے نتیجہ میں تضادات تلاش کرنے کا جواستشراقی منصوبہ بنایا گیا، اس کے تباہ ہونے سے کچھ پہلے ایک اعلان کیا گیا ، جس کا ذکرڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے اس طرح کیا ہے:
’’قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ: ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن روایات کا اختلاف ایک بھی نہیں ہے۔‘‘(۱۳۵)
۲۔ معمولی اختلافات سورتوں کی ترتیب میں اس قدر پرانے اوراق میں بالکل قدرتی عمل ہے۔موجود ہ مصاحف میں ترتیب کے خلاف کچھ لوگوں نے بذات خود بھی ترتیبات لگانے کی کوشش کی ہے، جسے فلوجل نے کیا، Puin