کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 571
ہجری کے آخری چوتھائی حصہ سے ہے۔ یہ آرٹیکل" Observations on Easly Qru'an Manuscript in Sana "کے عنوان سے تحریر کیا گیا اور مختصر عرصے میں مستشرقین کی توجہات کا مرکز بن گیا ، چنانچہ اس سلسلے میں ایک سیمنار لائیڈن ۱۹۹۸ء میں مطالعات قرآنی(Qur'anic Studies) کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں بوتھمر اور پیوئن نے صنعاء کے مخطوطات قرآنیہ کے حوالے سے لیکچرز دئیے۔(۱۲۸)
منعقدہ لیکچرز کی تفصیلات اگرچہ نہیں ملتی تاہم Puinکا آرٹیکل پڑھنے سے چند اہم نکات معلوم ہوتے ہیں ۔
٭ Puinکے بقول اس کے پیش رو مستشرقین میں سے آرتھر جیفری Arthur Jeffery ،اوٹو پرٹزل Otto Pretzel ،انتونی سپٹلر(Antony Spitaler) اوراے فچر(A Fischer) نے قرآن کا نظر ثانی شدہ(Revised Versian) مصحف تیار کرنے کیلئے ایک سنجیدہ کوشش کی تھی اور اس ضمن میں انہوں نے اسوقت تک کے موجود ہزاروں مصاحف قرآنی کا آپس میں تقابل کرنے کے منصوبہ پر کام کا آغاز کیا۔ اس کے لیے جرمن کی میونخ یونیورسٹی میں یہ تمام مواد جمع کرکے بڑے پیمانے پر کام کو آگے بڑھایا گیا، لیکن انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہ سارا مواد اور ریکارڈ بمباری سے تباہ ہوگیا۔Piunکی نظر میں صنعاء کی یہ دریافتیں اسی منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے میں ایک بہت بڑی امید کی کرن اور اہم موقع کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کا Revised Versianفراہم کرنے اور اس کی نصوص میں اضطراب و ارتقاء ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ اس کے بقول:
" So many Muslims have this belief that everything between the two covers of the Koran is just God's unlatered word,"{Dr.Puin} says."They like to quote the textual work that shows that the Bible has a history and did not fall straight out of the sky, but until now the Koran has been out of this discussion. The only way to break through this wall is to prove that the Koran has a history too. The Sana fragments will help us to do this."(۱۲۹)
’’مسلمان اکثریت یہ ایمان رکھتی ہے کہ جو کچھ قرآن کے دو گتوں کے درمیان میں ہے وہ بلاشبہ من و عن(بغیر کسی کمی بیشی کے) خدا کا کلام ہے۔ وہ قرآنی نصوص کو نقل کرتے ہوئے یہ تأثر دیتے ہیں کہ بائبل ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور آسمانوں سے نازل نہیں ہوئی ، تاہم اب(ان دریافتوں کے بعد ) قرآن ایسی کوئی بحث کرنے کے قابل نہیں رہا ، کیونکہ اب قرآن ’’ تاریخ ‘‘ ہے۔صنعاء کے یہ اوراق و مخطوطات قرآن کی تاریخی حیثیت کو ثابت کرنے کیلئے ایک کامیابی ثابت ہو ں گے۔‘‘
٭ Puinان دریافت شدہ قرآنی اوراق کے مطالعہ کے بعد موجودہ قرآن سے انحرافی یا اختلافی مقامات کی نشاندہی بھی کرتا ہے، مثلاً
۱۔ بہت سارے اوراق میں الف(ہمزہ) غلط طریقہ سے درج لکھا گیا ہے ۔
۲۔ کچھ سورتوں میں آیات کے نمبر ز ایک دوسرے سے مختلف دیئے گئے ہیں ۔
۳۔ دو یا تین مقامات پر سورتوں کی ترتیب بھی مروجہ مصاحف میں سورتوں کی ترتیب سے ہٹ کر پائی گئی ہے۔(۱۳۰)
٭ اگرچہ خود Puinکی نظر میں یہ اختلافات کوئی ایسے بڑے اختلافات نہیں ہیں جن کے ذریعے ان کو علومِ قرآنی