کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 570
قرآنیہ میں ارتقاء کا یہ نظریہ کئی لحاظ سے باطل ہے: ٭ مصاحفِ قدیمہ کی اِصطلاح جیفری کی اپنی وضع کردہ ہے اور جیفری نے ثانوی درجہ کے مصادر میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کی تفسیری روایات کو مصاحف ِقدیمہ کا نام دیا ہے حالانکہ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تمام آیات ِقرآنیہ مصاحفِ عثمانیہ کی صورت میں باجماعِ صحابہ اُمت میں مروج ہوئیں ۔ ٭ قراءات کے اختیار میں آزادی نہیں تھی بلکہ قراءات سنتِ متَّبعہ اورمنزل من اللہ ہیں ،ان میں کسی انسان کے لیے کسی قسم کے اجتہاد واختیار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ٭ سبعہ یا عشرہ قراءات کا ’تسلط‘(۱۲۷) نہیں ہوا بلکہ ان کی ترویج شہرت اورتواتر کی وجہ سے ہوئی۔ ٭ قرآن کریم کی قراءات کو بنیاد بنا کر جس ارتقائی تاریخ کی غیر تکمیلی صورت کا مستشرق موصوف نے تذکرہ کیا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے خصوصاً یہ سوچ جس کی بناء پر وہ قرآن کو بائبل کے مقابلہ میں کمتر پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے ،انتہائی غیر دیانتداری پر مبنی رویۂ تحقیق ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید کے برعکس جملہ کتب انبیاء کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے حواریوں کے ہاتھوں لکھی گئیں جبکہ قرآن اور اس کی قراءات خالصتاً سماعی اور منقولی بنیادوں پر پھیلی ہیں ،کتابت اس کیلئے کبھی کوئی معیار نہیں رہا بلکہ بعد میں کتابتِ قرآن ان قراءات کو پیشِ نظر رکھ کر مکمل ہوئی۔غرض قراءات میں کسی قسم کا کوئی تطور ،تغیر یا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین، ائمہ قراء اورامت تک بطریقۂ تواتر یہ قراءات ہم تک پہنچی ہیں اور قرآن کا ہر حرف ابدی صداقتوں کا حامل ہے اور ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔ صنعاء(یمن) سے دریافت شدہ قرآنی مخطوطات اور استشراقی توقعات یمن کے شہر صنعاء کی عظیم جامع مسجد کی نئی تعمیر کے دوران اس کے بالا خانہ سے ۱۹۷۲ ء میں پرانے چرمی اوراق ، بہت بڑی تعداد میں دریافت ہوئے ، جن میں سے اکثر پر قرآنی آیات تحریر تھیں ،یمن میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے چیئرمین قاضی اسماعیل الاکوع نے جب ان پارچہ جات کوملاحظہ کیا تو ان کی قدامت اور خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ان اوراق کو صحیح سالم حالت میں محفوظ کرنے کیلئے ماہرینِ فنِ آثارقدیمہ کو دعوت دینا زیادہ مناسب ہے چنانچہ قاضی اسماعیل الاکوع کی خصوصی دلچسپی سے جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ذریعہ دو جرمن ماہرین ڈاکٹر گریڈ ، آر پیوئن(Dr. Gred. R. puin) اور ایچ۔سی۔ گراف وان بوتھمر(H.C.Graf Von Bothemer)کو ان قرآنی مخطوطات کی حفاظت اور بحالی کیلئے طلب کیاگیا۔ ان ماہرین نے اس منصوبہ پر چند سال کام کیا۔ اس بات سے قطع نظرکہ ان ماہرین نے اس تحقیقی منصوبہ پر کیا اور کتنا کام کیا ،یہ بات واضح طور پرمشاہدہ کی گئی کہ ان کے استشراقی مقاصد اور مشنری جذبات کسی صور ت بھی ان سے جدا نہیں ہوئے ، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ بوتھمر نے اس دوران۳۵۰۰۰پارچہ جات کی مائیکروفلم کا ریکارڈ خفیہ طور پر محفوظ کیا اور ان کو اپنے ساتھ جرمنی لے آیا ۔ ۱۹۸۷ء میں انہی پارچہ جات کے حوالے سے بوتھمر اور پیوئن نے ایک مقالہ لکھا اور اُن مخطوطات کے نمبر دینے کے ساتھ ساتھ ایک چرمی مخطوطے جس کا نمبر۳۲۔۱۰۳۳تھا ، کے بارے میں یہ نشاندہی کی کہ اس کی قدامت پہلی صدی