کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 568
کودلیل بنانے سے بھی زیادہ مناسب اس انداز سے دیا جا سکتا ہے کہ جیفری کی منتخب روایات کی توضیح اس طرح کی جائے کہ تطبیق ،ترجیح اور تاویل کی صورت میں مفہوم ِروایت کی وضاحت ہو جائے۔ دورِ قریب کے عظیم مفکر ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے تھی ۔ وہ جمعِ قرآن سے متعلق ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی کتاب المصاحف اور ایسی دوسری کتابوں میں بیان کی گئی روایات کو رد نہیں کرتے بلکہ وہ ان روایات کی تشریح وتوضیح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں موجود روایات کی تردید بھی نہیں ہوتی اور ان کی ایسی تاویل ممکن ہوتی ہے جس سے ان کا اپنا مدلل نقطۂ نظر بھی متاثر نہیں ہوپاتا۔(۱۱۳)ذیل میں یہی منہج اختیار کرتے ہوئے جیفری کی محققہ ،ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی،کتاب المصاحف کی چند روایات کی تاویلات پیش کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوگا کہ بالفرض اگرایسی روایات کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس کا درست مفہوم ،صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین اور دیگر علماء امت کے متفقہ نظریہ ہی کے موافق بنتا ہے۔ الغرض جیفری کے وضع کردہ تمام مصاحف اور ان میں موجود قراءات وروایات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتااورغالباً جیفری اسی وجہ سے ان روایات کے استنادی ثبوت کے درپے نہیں ہوا اور نہ ہی ان قراءات کے مصادر متعین کیے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ Materials کے۳۶۲صفحات میں مرقوم’ مصاحف ‘ مروج ومتواتر متنِ قرآنی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی کمزور روایات کا مصحف عثمانی سے تقابل کاکوئی منطقی جواز بنتا ہے۔ جیفری کو یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ تابعین کے مصاحف سراسر مصاحف ِ صحابہ کے تابع ہیں ۔مثلاً مصحفِ علقمہ(م۶۲ھ)،ربیع بن خیثم رحمہ اللہ (م۶۴ھ)،حارث بن سوید رحمہ اللہ(م۷۰ھ)، حطان رحمہ اللہ(م۷۳ھ)،اسود رحمہ اللہ(م۷۴ھ)،طلحہ بن مصرف رحمہ اللہ(م۱۱۲ھ) اورمصحفِ اعمش (م۱۴۸ھ) مکمل طور پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصاحف پر مبنی تھے۔ اس کے باوجود اس نے ۱۳تابعین کے مصاحف کو محض اپنی کتاب کی ضخامت کاذریعہ بنایا ہے۔ جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان مختلف مصاحف کے متعلق یہ نظریہ بھی قائم کیا ہے کہ یہ مختلف شہروں میں مصحف عثمانی سے قبل رائج تھے اورانہی کے مابین اختلاف کے باعث لوگ ایک دوسرے کی قراءات کا انکار کرنے لگے۔(۱۱۴) حالانکہ تاریخی یا منقولی اعتبار سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مصاحفِ عثمانیہ کے ارسال سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم کے کوئی رسمی مصاحف تھے بلکہ ان کے پاس صحف اورقرآن کی بعض سورتوں کے اجزاء تھے۔چونکہ اصل بنیاد حفظ پر تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف حروف سن لینے کی بناء پر ان کی ادائیگی میں اختلاف پیدا ہوا ،مفہوم ومقصد پر سب کا اتفاق تھا۔ یہی وجہ بنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء کو بھی بھیجا تاکہ لوگوں کوبعینہٖ ان حروف پر قرآن پڑھائیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِجازت دی۔(۱۱۵) اسی ضمن میں آرتھر جیفری نے کہا ہے کہ اہلِ شام مصحفِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر متفق تھے(۱۱۶)حالانکہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے جبکہ شام میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ موجود رہے۔(۱۱۷) ٭ مصاحف عثمانیہ کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے جن اختلافات کا جیفری نے تذکرہ کیا ہے اس کی بنیاد گولڈزیہر ہے جس کا موقف گزشہ بحث میں ذکر کیا جا چکا ہے۔