کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 566
نہ ہی امت مسلمہ میں ان کی وجہ سے کبھی کوئی تشویش ہی پیدا ہوئی ۔ ٭ یہاں ایک بنیادی طرز کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کو جمعِ قرآن کے وقت ممنوع کیوں نہیں قرار دیا؟ یاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح ان کے جلانے کا حکم کیوں نہ ارشاد فرمایا؟یقیناً اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مصاحف صحابہ کے ذاتی اور مخصوص مصاحف تھے جو صرف انہی کے زیر استعمال رہتے تھے اور کسی دوسرے کی اس تک پہنچ نہ ہوتی اور نہ ہی ایسے واقعات اس وقت تک نمودار ہوئے تھے کہ جو مصحفِ واحد کا تقاضاکرتے۔ چونکہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا تھا اس لئے دوسری قراءات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ترغیب ان مصاحف کے بقاء کی ایک وجہ تھی۔(۹۵) جن کی ضرورت عہدِعثمانی میں قراءات سمیت قرآن کے جمع ہوجانے کے بعد ختم ہوگئی، اس لیے ان کو جلا دیا گیا۔ ٭ آرتھر جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب مصاحف منسوب کرنے میں بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا مختلف قسم کے ۲۸مقابل قرآن ایجاد ہوگئے حالانکہ اس نے بعض ایسے حضرات کو بھی مصحف کا حامل گردانا ہے جن سے پورے قرآن میں صرف چند مقامات پر قراءات کے اختلافات وارد ہوئے ہیں مثلاً حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے مصحف میں صرف دوروایات ذکر کر کے(۹۶)اس کومصحف کا بھاری بھرکم عنوان دے دیا ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے ۴روایات(۹۷)،ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کوئی نہیں (۹۸)،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ۱۰روایات(۹۹) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ۱۰روایات(۱۰۰)،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ۴روایات(۹۵)، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ۲۴(۱۰۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ۲۹(۱۰۳)،ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے ۳۵روایات(۱۰۴)اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ۱۳روایات ذکر کی گئی ہیں ۔(۱۰۵) جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف کے حوالہ سے جس مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اس کی ایک جھلک اس کے اس قول سے نظر آتی ہے کہ ’’ وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا مع ما جمعہ الآخرون‘‘(۱۰۶) ’’یعنی ہر ایک مصحف دوسرے مصحف سے ایک حرف میں بھی موافقت نہیں رکھتا۔‘‘ نصِ قرآنی کی تحریف اور عدمِ توثیق کیلئے اس قدر بلا دلیل جملہ تحقیق کے میدان میں قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ یہ تمام مصاحف خودجیفری کی مقدور بھر کوشش سے Materials میں مرتب کیے گئے ہیں ۔اس کے سوا ان کی کچھ حقیقت نہیں ۔ ٭ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جیفری نے غیر تصحیح شدہ نسخہ جات سے جن اختلافی قر اء ات کو نقل کیا ہے ان سب کی اسناد غیر مصدقہ ہیں ۔ وہ کوئی قابلِ اعتبار سند کے ساتھ ایسی کوئی قابلِ ذکر اختلافی قراءت لانے میں کامیاب نہیں ہو سکاجو مصحفِ عثمانی کی اسناد کی طرح محکم ومتواتر ہو۔اس کے ساتھ ساتھ بعض اختلافی قراءات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ لسانی اعتبار سے بھی ناممکن نظر آتی ہیں اوربعض اختلافی روایات کی اسناد ناممکن الوجود اور محال ہیں جو زمانی اعتبار سے درست تسلیم نہیں کی جاسکتیں یا وہ روایت کے معروف اصولوں کے مطابق نہیں ہیں ۔(۱۰۷) ٭ جیفری کے بقول: تمام مستشرقین کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے جو مصحف حضرت زید بن