کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 564
ایک کا جمع کیا ہوا دوسروں سے ایک حرف میں بھی متفق نہیں تھا۔‘‘ جیفری نے کتاب المصاحف کی ساتھ ملحقہMaterials میں بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی طور پر جمع کئے ہوئے نسخوں کے متعلق یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان مصاحف کا باہمی اختلاف بذاتِ خود ایک پیچیدہ مسئلہ ہے نیز یہ مصاحف ِصحابہ مصحفِ عثمانی کے مقابل ہیں ۔ اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے ۲۸ مصاحف کو مصحف ِعثمانی کے مقابل قرار دیتے ہوئے تقریباً۶۰۰۰ سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو کہ مصحف ِعثمانی سے مختلف تھے۔(۸۶) بنیادی مصاحف میں درجِ ذیل صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام مذکور ہیں : ۱۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ(۱۲ھ) ۲۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ(۲۳ھ) ۳۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ(۲۹ھ) ۴۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ(۳۳ھ) ۵۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ(۴۴ھ) ۶۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (۴۵ھ) ۷۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ(م۴۸ھ) ۸۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (۵۹ھ) ۹۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ(۶۵ھ) ۱۰۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ(۶۸ھ) ۱۱۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ(۷۳ھ) ۱۲۔ حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ(۷۴ھ) ۱۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۱۴۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۱۵۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب کہ ثانوی مصاحف میں ۱۳تابعین کے نام شمارکیے گئے ہیں ۔(۸۷) غرض قرآنی نص کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے ان مصاحف میں مذکور اختلافات کو جیفری نے حتی المقدور اُچھالنے کی کوشش کی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت کا بھی اظہار کرتا ہے: " This is the absences of any direct manuscripts evidence".(۸۸) ’’ بہر حال یہ روایات براہِ راست کسی باقاعدہ تحریری ثبوت کی حامل نہیں ہیں ‘‘۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف میں اختلافات کے ضمن میں جیفری کے معاندانہ رویۂ تحقیق سے پیدا شدہ بے بنیاد شکوک وشبہات کے اِزالہ اور مستشرق موصوف کی اس کام کی تقییم(Evaluation) سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصاحفِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے مسلم محققین اورعلماء کے نقطۂ نظر کا طائرانہ جائزہ لیا جائے: