کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 563
حفاظت کی ضمانت اوراپنے وعدہ کو سچا کرنے کی توفیق بخشی۔‘‘
٭ آرتھر جیفری قرآن کی ترتیب کو بھی موضوعِ بحث بناتا ہے،اور اس حوالے سے رقمطراز ہے:
’’فإن علماء الغرب لا یوافقون علی أن ترتیب نص القرآن کما ہو الیوم فی أیدینا من عمل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘(۸۲)
یعنی مغرب کے علماء نصِ قرآنی کی موجودہ ترتیب کو عملِ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ماننے پر متفق نہیں ہیں ۔اس اعتراض کی عبارت میں اولاً تو اخفاء ہے کہ’ترتیب ِنصِ قرآنی‘سے اس کا کیا مفہوم ہے، کیونکہ ترتیب ِآیات اور ترتیب ِسور دونوں مصحف کے حصے ہیں ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ مستشرقین نے قرآن کی آیات وسور کی ترتیب کو اپنا خاص موضوع اس لئے بنایا تاکہ وہ قرآن کریم کو غیر مرتب اورناقص ثابت کر سکیں ۔ ان کے نزدیک قران اس ترتیب کے مطابق نہیں جس پر وہ نازل ہوا تھا ۔چنانچہ Rodwellنے ترجمۂ قرآن کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ ’اس وقت مصحف میں موجود ترتیب دراصل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تیار کردہ ہے، ان کو جمعِ قرآن کے وقت جس ترتیب سے مختلف مقامات سے قرآن ملتا گیا وہ اسے اسی ترتیب کے مطابق جوڑتے چلے گئے، ان میں کوئی تاریخی ربط یا ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی۔(۸۳)
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کا مصحف ِعثمانی سے تقابل اور اس کی حقیقت
جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں ’’اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘کے عنوان کے تحت متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف جن میں علی بن ابی طالب،ابی بن کعب، سالم مولیٰ حذیفہ،عبداللہ بن مسعود،ابوموسیٰ اشعری، عبد اللہ بن زبیر، ابوزید اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ کے نا م لے کر یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قرآن کو اپنے اپنے مصحف میں جمع کیا۔ جیفری کہتا ہے کہ اگرچہ بعض لکھنے والوں نے جمع سے مراد حفظ لیا ہے، لیکن ہم ان کے قول سے موافقت نہیں کرتے جس کی چار وجوہ ہیں :
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا جمع شدہ مصحف اونٹ پر لاد کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس لائے۔
٭ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا جمع کیا ہوا مصحف لوگوں میں ’لباب القلوب‘ کے نام سے موسوم ہوا۔
٭ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا جمع کردہ مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جلا دیا۔
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عراق میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنرکو اپنا جمع کردہ مصحف پیش کرنے سے انکار کیا۔
اس سے لازم آتاہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو جمع کیا تھا وہ مصاحف میں تحریر ی صورت میں جمع تھااور ہر صحابی رضی اللہ عنہ کا خاص مصحف انہی سورتوں اور آیات پر مشتمل تھاجن سے وہ مطلع ہوپائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیلئے جو مصحف زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ بھی مستشرقین کی رائے میں ’مصحفِ خاص‘ تھا۔(۸۴)جیفری ان تفصیلات کوذکر کرنے کے بعد اپنا ہدف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
’’وکانت ہذہ المصاحف یختلف بعضہا عن بعض لأن کل نسخۃ منہا اشتملت علی ما جمعہ صاحبہا وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا ما جمعہ الآخرون‘‘(۸۵)
’’یہ مصاحف آپس میں ایک دوسرے سے مختلف تھے، کیونکہ ہر نسخہ اپنے جامع کی درج کردہ(معلومات) پر مشتمل تھا اور