کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 562
تعجب ہے کہ جیفری نے بخاری کی حدیث کویہ کہہ کر کہ’مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے‘ردکر دیا ہے حالانکہ قبولیت وعدمِ قبولیت ،روایت کی سند یا متن میں اِضطراب اورعلت کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر ہے نہ کہ رائے یا ذاتی خواہش پر۔ مستشرق موصوف کا یہی وہ منہجِ تحقیق ہے جس کی بناء پر اسلامی دنیا میں ان نظریات کو خاطر خواہ جگہ نہیں مل سکی۔ یہ بات بھی حیرت انگیز اورافسوسناک ہے کہ بعض دوسرے مستشرقین کی طرح جیفری نے بھی صحیح بخاری کی اس روایت کو درست ماننے سے انکار کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سرکاری سطح پر کوئی نسخہ تیار فرمایا تھا وہ لکھتا ہے: " His collection would have been a purely private affair, just as quite a number of other companions of the Prophet had made personal collections as private affairs"(۷۹) حالانکہ اگر عہدِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جمع شدہ قرآن Private collectionہو تو اس کے جمع کے لیے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ کی کوئی ضرورت نہ تھی اس کے باوجود انہوں نے مشورہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ جمع ذاتی نہ ہو بلکہ سرکاری سطح پر ہو۔خود جیفری کے بقول دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی ذاتی مصحف تھے اوروہ انہوں نے کسی کے مشورہ یا اس قسم کے حالات سے متاثر ہو کرنہیں لکھے تھے۔لہٰذا عہدِ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں جمعِ قرآن سرکاری سطح پر ہی ہواتھا۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں وہ ساری باتیں تو جیفری کی نگاہ میں جھوٹی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سرکاری سطح پر قران کی حفاظت کا اہتمام کیاگیا تھا، لیکن اسی روایت کا وہ حصہ اس کی نظر میں بالکل صحیح ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ’’اگر صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ کہیں قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے‘‘۔ایک طرف تو وہ پوری روایت نقل کر کے اسے من گھڑت اورموضوع کہتاہے اور دوسری طرف اسی روایت سے قرآن کریم کے غیر مکتوب ہونے پر استدلال بھی کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مستشرقین کا انصاف،نیک نیتی اورغیرجانبداری بالکل واضح ہے۔(۸۰)اس طرح کی متناقض(Paradox) آراء مستشرقین کی تحقیقات میں جابجانظر آتی ہیں ۔ طاش کبریٰ زادہ رحمہ اللہ نے علامہ خطابی رحمہ اللہ کے حوالہ سے عہدِ رسالت میں مصحف واحد میں عدمِ جمع قرآن کی حکمتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’’إنما لم یجمع القرآن فی المصحف لما کان یترقبہ من ورود ناسخ لبعض أحکامہ أو تلاوتہ،فلما انقضی نزولہ بوفاتہ الہم اللّٰہ الخلفاء الراشدین ذلک وفاء بوعدہ الصادق لضمان حفظہ علی ہذہ الامۃ‘‘(۸۱) ’’قرآن ایک مصحف میں اس لئے جمع نہیں ہوا، تاکہ احکامات اورتلاوت میں ناسخ کے ورود کا انتظار کیاجائے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اس کا اِمکان ختم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفاءِ راشدین کو اُمت کے لیے اس کتاب کی