کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 561
چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے تمام حروف والفاظ جبریل علیہ السلام سے حاصل کر کے ہو بہو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچائے ،اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے بعد والوں کو اور آج تک یہ سلسلہ بغیر کسی تبدیلی یا کمی بیشی کے جاری ہے اور رہے گا۔اس لئے یہ تو ایک ایسی سنت ہے جو نقل در نقل ثابت ہے، چنانچہ مسلمان قراءات کی تحقیق ووضاحت سے غافل نہیں اور نہ ہی اس کو چھپاتے ہیں بلکہ وہ تو اس حد تک ٹھہرے ہوئے ہیں جو ان کو بطریقِ تواتر موصول ہوئی ہے اور یہیں سے مستشرقین وملحدین کی عدمِ واقفیت کی بھی قلعی کھلتی ہے کہ وہ کس قدر قرآنی قراءات کے ایصال وترویج اور ان کے تواتر سے بتکلف صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ آرتھر جیفری کا یہ شبہ، کہ مسلمان علماء اپنی کتاب میں ارتقاء کی بحث سے رکے رہے ہیں ،اس کی اس تمنا اورخواہش کو واضح کرتا ہے کہ کاش یہودی اورعیسائی علماء کی طرح مسلمان بھی اپنی کتاب میں تحریف کرتے، لیکن مسلم علماء کی امانت ودیانت اور علم وتحقیق میں ان کا نقل وتواتر پر مدارکتاب اللہ کی حفاظت کا واضح ثبوت ہے۔ جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں اپنے پیشرو نولڈکے(Noldeke)، شوالی(Schewally)، برجسٹراسر(Bergrtrasser) اور پرٹزل (Pritzl)کے اتباع میں قرآنی متن کو اپنا موضوعِ تحقیق بنایا ہے اور خاص طور پر نولڈکے کی ’تاریخ القرآن‘کو بنیاد بناتے ہوئے چند نتائج کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ نتائج مستشرقین کی ابحاث ہی سے ماخوذ ہیں ،ان کے بغور مطالعہ سے ہمیں متعد د اغلاط اورمتناقض آراء بھی ملتی ہیں ۔جیفری نے ان کے بیان میں کسی منقولی دلیل سے استدلال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہم جیفری کے ذکر کردہ ان تحقیقی نتائج کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں : ٭ جیفر ی کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پوراقرآن نہیں لکھاگیا بلکہ اس کے کچھ حصے لکھے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کتابت قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کریم کے صحف یا اَوراق میں غیر مرتب صورت میں جمع ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔ اس کے الفاظ ہیں : ’’وہذا الرأی لا یقبلہ المستشرقون لأنہ یخالف جاء فی أحادیث أخری أنہ قبض صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یجمع القرآن فی شئ‘‘(۷۷) ’’ مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ دیگر اَحادیث اس دعویٰ کی مخالفت کرتی ہیں ،جن میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورقرآن کسی چیز میں جمع نہیں ہو سکا‘‘۔ جیفری نے صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگِ یمامہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعِ قرآن کا مشورہ دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اگر حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہیدہوتے رہے تو قرآن کریم کے بہت سے حصوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ،اس روایت کی بناء پر وہ کہتا ہے : ’’ویتبین من ہذا أن سبب الخوف ہو قتل القراء الذین کانوا قد حفظوا القرآن،ولو کان القرآن قد جمع وکتب لما کانت ہناک علۃ لخوفہما‘‘(۷۸) ’’ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خوف کا سبب حفاظ وقراء صحابہ رضی اللہ عنہم کا شہید ہونا تھا اگر قرآن کریم عہدِنبوی میں جمع ہو چکا ہوتا تو اس وجہ سے ان حضرات کو قرآن کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہوتا۔‘‘