کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 560
مصاحف کی حقیقت زیادہ سے زیادہ صرف اس قدر ہے کہ یہ وہ چند قراءات یا تفسیری اضافے ہیں جن کی استنادی حیثیت سے قطع نظر ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔یقیناً یہ چند روایات ِاحاد ،متواتر قرآن کے مدمقابل قابلِ تسلیم نہیں ہیں ۔
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصحف کو ’لباب القلوب‘ سے منسوب کیا گیا ہے جس کے ذیل میں صرف چار قراءات بیان کی گئی ہیں :
۱۔ ’ابراہیم ‘کی جگہ’ ابراہام‘ ۲۔ ’لا یعقلون‘ کی جگہ ’لا یفقہون‘
۳۔ ’صوافّ کی جگہ ’صوافِیَ ۴۔ مَنْ قبْلَہُ کی جگہ من تلقاء ہ(۷۳)
صرف چار صورتوں کی بناء پر جن میں دو قراءات ہیں اور دوتفسیری روایات ہیں ،قطعاً الگ مصحف کو خاص اسم سے منسوب کرنا قرآنی تاریخ میں گھات لگانے کے مترادف ہے۔(۷۴)
جیفری نے کتاب المصاحف کی Editingکے بعد اس کے شروع میں عربی زبان میں ایک مقدمہ اور آخر میں Materials for the history of the text of the Quranکے نام سے اپنا مسودہ شامل ِاشاعت کیا ہے ۔ اپنے مقدمہ کی ابتدائی سطور میں اس نے بڑی آسانی سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’ ہم یہ کتاب قراء کے لیے اس امید پر پیش کر رہے ہیں کہ یہ ان کے لیے قرآنی قراءات کے ارتقائی تاریخ پر ایک تازہ اور نئی بحث کے طور پر بنیاد ثابت ہوگی۔اگر چہ اس دور میں مشرق کے علماء قرآن کے اعجاز واَحکام کے متعلق بہت سی کتابیں شائع کر رہے ہیں ، لیکن وہ ہمارے سامنے قراءات کے اِرتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ ہمیں یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکی کہ مسلمان اس بحث میں تحقیق کرنے سے اس حد تک کیوں گریزاں ہیں ،جبکہ فی زمانہ ،ارتقاء کے متعلق ،کتب قدیمہ میں خاص طور پر کئی نزاعات سامنے آرہے ہیں ۔ چنانچہ اس کتاب میں جو تبدیلی یا تحریف واقع ہوئی ہے اس حوالہ سے بعض لکھنے والے کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔‘‘(۷۵)
مستشرق موصوف کے اس بیان کا جو پس منظر راقم کے سامنے آتا ہے وہ درحقیقت اس کا اپنی مقدس کتب کی حقیقتوں سے صحیح معنوں میں روشناس ہونا ہے ، چنانچہ اس کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ انجیل اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے اور اس میں پے بہ پے ارتقاء کے سبب پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے اس کا متن ناقابلِ اعتبار ہوچکاہے۔بالکل شعوری طور رپروہ مسلمانوں کے قرآن کو اپنی کتب کے مساوی حیثیت میں لانے کے لیے یہ جملہ ذکرکر رہا ہے ۔یقیناً اس کے بقول جو مصنفین اس’ تحقیق‘ میں کامیاب ہوئے ہیں وہ انجیل کی تحریفات اور اس میں ارتقائی تبدیلیوں کے صحیح تجزیہ نگار ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسے کام کی نہ تو کبھی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی قرآن میں ایسے ارتقاء کی کوئی گنجائش ہے ۔
قرآن کی قراءات متواترہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت و منقول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحیِ الٰہی کے بغیر کوئی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ قرآن نے اس کی تصریح کی ہے :
﴿قُلْ مَایَکُونُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَآءِ یْ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ﴾(۷۶)
’’کہہ دیجئے کہ مجھے اختیار نہیں کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدلوں ، میں تو صرف اسی کی اتباع کرتا ہوں کہ جو مجھ پر وحی ہوتی ہے‘‘۔