کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 559
مصاحف جمع تھے،بذاتِ خود دومختلف معنوں کا شبہ پیداکرتاہے: اوّل:اس سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول زبانی روایات ہیں ۔(۶۴) دوم: تحریری شکل میں نسخے موجود تھے۔
پہلی رائے کے دلائل کی موجودگی کے باوجود جیفری نے دوسری رائے پر ہی اصرار کیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو ’مقابل قرآن ‘کا عنوان دیا ہے۔
٭ مختلف اورمتناقض روایات کو ذکر کرتے ہوئے ابن ابی داؤد رحمہ اللہ نے’’باب اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’إنما قلنا مصحف فلان لما خالف مصحفنا ہذا من الخط أو الزیادۃ أو النقصان‘‘(۶۵)
’’ہم جب کہتے ہیں فلاں کا مصحف ،تو وہ دراصل خط کی وجہ سے ہمارے مصحف کے مخالف ہوتا ہے یا زیادتی یا نقصان کی وجہ سے۔ ‘‘
غالباً جیفری نے اسی عبارت سے Rival Codex مقابل مصاحف کے نظریہ کا استدلال کیا ہے حالانکہ خط کی مخالفت کی وجہ سے اگر یہ مان لیا جائے تو زیادتی ونقصان کی اِمکانی توجیہات کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے مصاحف کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا جا سکتا ہے جبکہ طرزِ روایت بھی کمزور ہو۔
بالفرض اگران روایات کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف نسبت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی وہ تفسیری روایات یا شاذ قراءات کے درجہ میں رہتی ہیں ۔ ان روایات میں زیادہ اختلافات قرآنی سورتوں کی ترتیب کے ملتے ہیں جو دراصل صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان سورتوں کے درجہ بدرجہ میسر آنے کے لحاظ سے فطری طور پرواقع ہوئے ہیں ۔لہٰذا مستشرق موصوف کو کسی بھی طرح روا نہ تھا کہ’مقابل قرآن‘ کاعنوان قائم کر تا بلکہ اس کو چاہئے تھا کہ وہ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے اس منہج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔(۶۶)
٭ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ نے ’مصحف ِعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ‘کا عنوان قائم کیا ہے۔(۶۷) جس کو دیکھتے ہی یہ تاثر ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پورا قرآن علیحدہ طور پر جمع کیا تھا، لیکن تین آیات میں صرف تین صورتوں کا ذکر کر نے کے بعد یہ مصحف اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔(۶۸)ایسی صورت میں ایک عقلمند شخص کسی بھی طرح تین اختلافی وجوہ کی بناء پر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کوکسی مستقل مصحف کا حامل نہیں گردان سکتااور نہ ہی اس سے مصحف امام کے ساتھ تقابل کی منطق سمجھ میں آتی ہے، لیکن جیفری ان کو مقابل مصحف کا حامل گرداننے پر مصر ہے۔(۶۹)
٭ اس سے بھی زیادہ قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ مصحف ِعمر رضی اللہ عنہ کے بعد ’مصحف ِعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ‘میں صرف ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ﴿آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُوْمِنُوْنَ﴾(۷۰)کو اس طرح پڑھتے تھے﴿آمن الرسول بما انزل الیہ وآمن المومنون﴾(۷۱)ظاہر ہے کہ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ اس سے تفسیری روایات کو واضح کرنا چاہتا ہے، لیکن محقق نے اس کوبھی مصحف گرداناہے۔
٭ واضح رہے کہ بعض مولفین نے ’مصحف ِفلان‘کے لفظ کا اطلاق ان چند قراءات پر بھی کیا ہے جو کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہوں جیسا کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی جانب مصحف منسوب کیا ہے حالانکہ وہ قرآن کریم کے مکمل ہونے سے آٹھ سال قبل غزوئہ ِاحد میں شہید ہوگئے تھے۔(۷۲)اس سے معلوم ہوا کہ مصحف کے لفظ کا اطلاق پورے قرآن کے جمع پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک یا زیادہ روایات پر بھی ہوتا ہے ۔ لہٰذا آرتھر جیفری کے مقابل