کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 558
اثرنمبر ۴۲۴میں مصنف کا قول ہے: ’محمد عن سفیان‘‘میں مستشرق موصوف نے اس کو ’محمد بن سفیان‘کردیا ہے۔(۵۵)
٭ اکثر مقامات پر جیفری نے آثارِ منقولہ کے رجال کی تعیین میں خطا کی ہے مثلاً وہ عموماً کہتا ہے ’لعلہ فلانٌ‘یعنی شاید یہ وہ ہیں حالانکہ صحیح اس کے علاوہ کوئی اور ہوتا ہے۔ مثلاً اثرنمبر ۳۲۱میں ’’عن(یونس)‘‘کے متعلق کہتا ہے کہ اس سے مراد ابن حبیب رحمہ اللہ ہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ یونس بن یزید الدیلی رحمہ اللہ ہیں ۔ (۵۶) اسی طرح کی غلطی اثرنمبر ۵۱۸ میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔(۵۷)
٭ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے چچا کی تعیین میں جیفری سے سخت غلطی ہوئی ہے اس کے نزدیک ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے چچا یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ ہیں جن کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔(۵۸)جیفری کی اس خطاء کا سبب اس کاعبارت نقل کرنے میں غیر محتاط اسلوب ِتحقیق ہے،چنانچہ اس نے مولف کے اس قول ’’حدثنا عمی ویعقوب بن سفیان‘‘میں ’عمی‘ کے بعد واؤ عاطفہ کو حذف کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اس کویہ گمان ہوا کہ یعقوب رحمہ اللہ مولف کے چچا ہیں حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ یعقوب رحمہ اللہ ، ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے شیخ تھے اور آپ کے چچا محمد بن الاشعث السجستانی رحمہ اللہ ہیں ۔(۵۹)
ہم یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ باشعور قاری کے لیے کسی درست نتیجہ تک پہنچنے کے لیے سند کا کس قد ر اہم کردار ہوتا ہے اور اگر وہی غیر صحیح اور محرف حالت میں ہو تو روایت سے وہ نتائج اخذ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ کوئی ٹھوس حقیقت یا دعویٰ کی صورت اختیار کرتی ہے ۔ سلسلۂ سند میں رجال کی معرفت اور اس کا ایصال صحیح سلسلوں سے مؤکد ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے،جس کے اِدراک سے جیفری قطعاً عاری نظر آتا ہے۔
٭ Materials میں مختلف قراءات قرآنیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جیفری نے ’’دلنا بدل اھدنا‘‘ کی بجائے ’’دلنا یدک اھدنا‘‘لکھا ہے۔(۶۰)بقول ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری’’ جب تک جیفری اپنے مصادر کا تعین نہ کرے کہ وہ یہ الفاظ کہاں سے لے رہا ہے اس وقت تک حصولِ اطمینان محال ہے۔‘‘(۶۱)
٭ ایک محققِ کتاب کے لیے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ صاحب کتاب کے ان اَقوال وروایات پر بھی بحث کرے جو جمہور علماء کے خلاف ہوں یا جن کی سند میں نقص ہو،صاحب کتاب کے متضاد اورغیر منطقی اَقوال ودلائل پر بھی کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی نشاندہی کرے۔چنانچہ بالغ النظر اوردیانتدار محقق ہمیشہ ان اُصول وقواعد کومدنظر رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جیفری ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکا۔ہم اس کی وجوہات ذکرکرنے کی بجائے ان چند مقامات کی نشاندہی کئے دیتے ہیں جو ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی ’کتاب المصاحف‘میں ایک عام فہم آدمی کے نزدیک بھی قابلِ گرفت شمار ہوتے ہیں ۔لیکن جیفری نے ان سے تغافل برتا ہے۔
٭ جیفری ، ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی استعمال کردہ ’مصحف یا مصاحف‘کی اصطلاح کو واضح نہیں کر سکا اورنہ ہی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ اس کو کتنے معانی ومفاہیم میں استعمال کرتا ہے۔(۶۲)مثلاً اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب مختلف قراءات کو مصحف کے عنوان سے بیان کیا ہے،اسی طرح مصحف کو حرف یا قراءت کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔(۶۳) لہٰذا اس اصطلاح سے قطعی طور پر یہ مفہوم اخذ کرنا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے