کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 557
المصاحف کی تحقیق میں اس اہم اصول سے عدول کرتے ہوئے کئی مقامات پر متن کتاب میں اَبواب کے اِضافے کیے ہیں ۔مثلاً مخطوط نسخہ کے مطابق آغاز کسی اثر کی سند سے ہورہا ہے جس کا پہلاحصہ حذف ہے، لیکن جیفری نے اپنی طرف سے باب کا عنوان باندھا ہے مثلاً’’باب من کتب الوحی لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ اسی طرح کتاب کے مزید کئی مقامات پر اس روش پر عمل کرتے ہوئے عنوان کے ساتھ باب کااضافہ کیاگیا ہے۔مثلاً مصنف کے عنوان’’جمع ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ القرآن فی المصاحف بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘(۴۸)سے قبل ’’باب من جمع القرآن‘‘ کااضافہ کیا ہے۔اسی طرح اثر نمبر ۳۴۴سے پہلے اپنی طرف سے ’’ما اجتمع علیہ کُتّاب المصاحف‘‘ عنوان کا اضافہ کیا۔(۴۹) لطف کی بات تویہ ہے کہ جیفری کی تحقیق کے دوران چند ایسے مقامات بھی نظر سے گذرے ہیں جہاں لفظ باب کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس کو رقم کرنے میں حرج نہ سمجھاگیا ۔شاید اس کی وجہ مخطوطہ کی تصحیح سے زیادہ صاحب کتاب کی تصحیح مقصود تھی مثلاً ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے عنوان’’اختلاف خطوط المصاحف‘‘ (۵۰) کو’’باب اختلاف خطوط المصاحف‘‘لکھاگیا ہے۔ ٭ متعددمقامات پر اپنی طرف سے کلمات کے بے جا اضافہ جات بھی جیفری کے منہجِ تحقیق کو غیر محکم اورپرنقص بناتے ہیں ،غالباً جیفری نے ان کلمات کااِضافہ کسی’اثر‘کے معنی کی تکمیل کی غرض سے کیا ہوگا،لیکن حقیقت میں درست مفہوم زیادتی کلمہ کے بغیر زیادہ درست اورواضح تھااورعین مخطوطہ کے الفاظ ہی حقیقی اورمعنی کی تکمیلی شکل تھے۔ مثال کے طور پر اثرنمبر۲۶ میں جیفری نے حرف ﴿فی﴾کااضافہ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی عبارت ’’فنسخہا عثمان ہذہ المصاحف‘‘میں ’’فی ہذہ المصاحف‘‘(۵۱)کے ساتھ کیا ہے حالانکہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اسی اثر کو ’فی‘کے بغیر ذکر کیاہے اور وہی صحیح ہے۔(۵۲) ٭ کتاب المصاحف میں مذکور بعض آثار کی اسناد بیان کرنے میں بھی جیفری سے بہت زیادہ اغلاط سرزد ہوئی ہیں جو یقیناً تحریف کے زمرے میں آتی ہیں ۔مصادر ومراجع کی قطعیت(Authenticity) جس طرح مستشرقین کے نزدیک غیر اہم ہے، جس کی بناء پرعموماً ان کے ساتھ غیرمحققانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے، اور مسلم علماء ومحققین ان کی نام نہاد تحقیقات کو قابل اعتناء نہیں گردانتے، اسی طرح اس کتاب کی تحقیق میں بھی غیر محتاط اور غیر سنجیدہ اُسلوب اختیار کیاگیا ہے ۔ہمیں مستشرق موصوف کی عربی لغت میں عدمِ مہارت کا بخوبی احساس ہے، لیکن اس قدر حساس اور نازک موضوع پر جسارت سے قبل کم از کم اس کااحساس ضروری تھا جس کا لحاظ نہیں رکھاگیا۔ ٭ محقَق نسخہ میں کئی مقامات پر باہم مشابہ حروف کو ایک دوسرے کی جگہ لکھ دیا گیا ہے مثلاً: اثرنمبر۳۱۶ میں مصنف کاقول ہے:’’والحسن بن أبی الربیع أن عبد الرزاق‘‘کو مستشرق نے’’بن عبد الرزاق‘‘کردیا ہے۔(۵۳) اسی طرح اثرنمبر ۴۱۴میں ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کاقول ہے:’نا محمد نا شعبۃ‘جبکہ جیفری نے ’محمد بن شعبۃ‘ لکھا ہے۔(۵۴)اس میں پہلے ’نا‘کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کردیاگیا اوردوسرے ’نا‘ کو ’بن‘ کر دیاگیا۔ حالانکہ حدیث کی اصطلاح میں یہ الفاظ ’حدثناوأخبرنا‘کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔