کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 556
گنجائش کومصحف سے نکال باہر کیااورصرف منقول اورمتواتر قراءات کومحفوظ کر دیا۔مزید لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ فعل اورقصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قصد، قرآن کو دوگتوں میں محفوظ کرنے، کی طرح نہ تھا بلکہ یہ قراءات ثابتہ کوجمع کرنا تھا۔(۴۲)
٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآنی متن کونقاط اوراعراب سے خالی رکھا جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کامیلان اوررغبت لوگوں کو متواتر قراءات پرجمع کرنا تھا اورمنسوخ وشاذ قراءات سے چھٹکارا دیناتھا۔(۴۳)
٭ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصد توحیدنصِ قرآنی ہوتا تو وہ مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھواتے اور ان کے مابین کوئی اختلاف بھی موجودنہ ہوتا۔پس مختلف صورتوں اورمتعددکیفیات پر اس کی کتابت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے توحید نصِ قرآنی کاارادہ نہیں کیا بلکہ بطریقِ تواتر منقول قراءات پر لوگوں کوجمع کرنا مقصود تھا۔(۴۴)بالفرض اگر انہوں نے نص کو ایک کیا ہے تو یہ مروجہ قراءاتِ مختلفہ کیا ہیں ؟
مصاحف اور قرا ء ات کے مطالعہ میں جیفری کا نظریہ ارتقاء
مشہورمستشرق آرتھرجیفری نے مصاحف عثمانیہ سے قبل بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول قراء ات(جنہیں وہ مصاحف شمار کرتاہے)پرنقدوجرح کی غرض سے ابن ابی داؤد(م۳۱۶ھ)کی’کتاب المصاحف‘ کاانتخاب کیا۔ جس سے اس کامقصد قرآنی نص کومضطرب اورمشکوک انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متعدد متون میں ارتقاء ثابت کرناہے۔ہم اس بحث میں آرتھر جیفری کے منہجِ تحقیق وتنقید پر اُصولی بحث کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ دراصل تحقیق میں دیانتدارانہ طریقۂ کار کبھی بھی مستشرقین کے حصہ میں نہیں آیا۔
جیفری کے منہجِ تحقیق کی تقییم
٭ آرتھرجیفری نے اس کتاب کی Editingکی کیلئے نسخۂ ظاہریہ پر اعتماد کیا ہے اور اس کا تقابل دارالکتب المصریۃ والے مخطوط سے کیا ہے ،حالانکہ مؤخر الذکر نسخہ ،نسخہ ظاہریہ سے ہی نقل کیاگیا ہے اور دراصل یہ دونوں ایک ہی نسخہ کی دوشکلیں ہیں نہ کہ دوالگ الگ نسخے۔ اس کے باوجود مستشرق موصوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ متقابل نسخہ ہے۔(۴۵)
٭ جیفری نے اپنے مقدمہ میں اس نسخہ کے پہلے ایک دو اَوراق کے سقوط کاذکر کرتے ہوئے جس گمان کا اِظہار کیا ہے وہ اس کے پہلے سے طے شدہ نتائج کی بھر پور غمازی کرتا ہے۔اس کے زعم میں اس کتاب کے اصل نسخہ سے کئی صحف ساقط ہیں خصوصاً ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءات اورطلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ کی قراءات پر مشتمل فصول(۴۶) حالانکہ یہ گمان بلا دلیل ہے۔
٭ مقدمہ کے آخر میں جہاں ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کے کچھ حالات ذکر کیے گئے ہیں ، وہیں مخطوط نسخہ میں بعض سماعات کابھی ذکر کیاگیا ہے جن میں سے بہت زیادہ تعداد میں سماعات کو جیفری نے ترک کیا ہے۔اس کی وجہ سماعات کی اہمیت،فوائد اوران کے نتائج ومقاصدسے ناواقفیت ہے۔(۴۷)
٭ ہمیشہ کسی مخطوط کی تحقیق اس اصول کی روشنی میں ہوتی ہے کہ مصنفِ کتاب کی اصل عبارت جوں کی توں رہے اور محقق کے وضاحتی نوٹس بریکٹس([ ])یا حاشیہ میں جگہ پائیں ،لیکن آرتھرجیفری نے اس کے برعکس کتاب