کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 555
٭ قراءاتِ مختلفہ قرآن کے متعدد متون ہیں ، لہٰذا قرآن ایک نہیں ہے۔
٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو ایک کر دیا۔
گولڈزیہر اپنے شبہا ت میں تدریجی رنگ اختیار کرتے ہوئے اوّلاً نصِ قرآنی کو مضطرب گردانتاہے پھر جمعِ عثمانی سے ماقبل مصاحف کا مصحفِ عثمانی سے تقابل کرتا ہے جس کے بعد اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کے مختلف Versionsہیں ۔اس کے بعد مذکورہ بالا شبہ پیش کیا جوسابقہ شبہات کا ہی تسلسل ہے۔
گولڈزیہر کے نزدیک مسلمان ہمیشہ قرآنی نص کی وحدت کی طرف رغبت رکھتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش بارآور ثابت نہیں ہوسکی البتہ دورِ عثمانی میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ گولڈزیہر بھی دیگر مستشرقین کی طرح دلائل سے قطع نظر پہلے سے طے شدہ نظریات ہی کو اپنا واحد وظیفہ بناتاہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دعووں پر اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔بہرطور جواباً چند نکات ملاحظہ ہوں :
٭ کسی ایک مسلمان سے بھی یہ ثابت نہیں کہ اس نے کبھی یہ خیال کیا ہو کہ قرآن کریم کی کئی نصوص ہیں ،ان کو ایک کر دیا جائے اوراگر ایساہوتا تو ہم تک یہ بات ضرور پہنچتی۔
٭ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی جو کتابت کروائی اور ان کو مختلف ممالک ِاسلامیہ کی طرف اِرسال کیااورلوگوں کو اس پرمامور کیا ،اس کا باعث توحیدنصِ قرآنی کی طرف میلان نہیں تھابلکہ تمام مسلمانوں کو قراءاتِ ثابتہ پر اکٹھا کرنے کی رغبت تھی تاکہ متواتر قراءات کے علاوہ قراءات کا خاتمہ ہو اورامت پر آسانی اورسہولت ہوجائے۔(۳۹)
٭ مصاحف میں قرآن کی کتابت کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اہلِ حمص،اہلِ دمشق اور اہلِ کوفہ وبصرہ کی یہ خبر پہنچی کہ ان میں سے ہر ایک اپنی قراءت کو دوسرے کی قراءت سے بہترکہتا ہے اورلوگ نزاع میں مبتلا ہورہے ہیں تو اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے تقریباً بارہ ہزار کی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور یہ رائے دی کہ لوگوں کو ایک مصحف پرجمع کردیاجائے۔چنانچہ خلافتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ میں جمع کردہ مصحف کو ، جو اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا،منگواکرحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کوحکم دیا کہ وہ اس سے عرضۂ اَخیرہ کالحاظ رکھتے ہوئے مصاحف تیار کریں ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان مصاحف کی تیاری کے بعدہرمصحف کے ساتھ ایک ایک قاری بھی مختلف شہروں میں بھیجا تاکہ وہ رسمِ مصحف کے مطابق متواتر قراءات کی تعلیم دے۔ اس طرح ان علاقوں میں تابعین حفاظ کا ایک جمِ غفیر پیداہوگیاجوصحابہ رضی اللہ عنہم کے براہِ راست شاگردتھے۔
قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’لم یقصد عثمان قصد أبی بکر فـی جمـع القرآن بین لوحین،وإنما قصد جمعہم علی القراءات الثابتۃ المتواترۃ المعروفۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم والغاء مالیس کذلک ‘‘(۴۱)
’’یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کامیلان اور قصد قرآن کو دوتختیوں میں جمع کرنا نہیں تھا بلکہ متواتر اورثابت قراءات کاجمع وتحفظ مقصودتھاجوپوراہوا۔‘‘
٭ حافظ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ کاقول ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے باطل اورغیر معروف قراءات کی