کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 554
تنوعِ قراءات کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں : ۱۔ رَبَّنَا بَاعِدْ اور بَاعَدَ(۲۹) ۲۔ اِلَّا اَنْ یُّخَافَا الّا یُقِیمَا اور الَّا اَنْ یَخَافَا الا یقِیْمَا(۳۰) ۳۔ وَاِنْ کَانَ مَکْرہم لِتَزُوْلُ اور لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَال(۳۱) ۴۔ یخدعون اور یخادعون(۳۲) ۵۔ یَکْذِبُوْنَ اور یُکَذِّبُوْنَ(۳۳) ۶۔ لمستُمْ اور لامستم(۳۴) ۷۔ حَتّی یَطْہُرْنَ اور یَطَّہَرْنَ(۳۵) ہر قراءت دوسری قراءت کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ایک آیت دوسری آیت کے لیے،ہر ایک پر ایمان واجب ہے اور جو معنی وہ قراءات رکھتی ہیں اس کا اتباع بھی واجب ہے ۔ تعارض کا گمان کرتے ہوئے دووجوہ میں سے کسی ایک کو ترک کرنا جائز نہیں بلکہ خود حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’من کفر بحرف فقدکفر بہ کلہ‘‘(۳۶) جن قراءات میں لفظ اورمعنی دونوں متحد رہتے ہیں ان کا تنوع دراصل کیفیت ِنطق میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً: ہمزات، مدات،امالات اورنقلِ حرکات، اظہار، ادغام، اختلاس،لام اور راء کو باریک کرنا یا موٹا کرناوغیرہ جن کو قراء ’اصول‘کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی تناقض اورتضاد نہیں ہوتا،کیونکہ ایک لفظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے لفظ کو مختلف نہیں بناتے بلکہ لفظ بدستور اسی طرح رہتا ہے اوربسااوقات اَدائیگی کے انہی طریقوں سے متعدد معانی نمودار ہوتے ہیں جو رسم میں متحد ہونے کے باوجود متنوع معانی کے حامل ہوتے ہیں ۔(۳۷) غرض جملہ قراءات حق ہیں اور ان کا اختلاف بھی حق ہے،اس میں کوئی تضاد اورتناقض نہیں ۔قرآن مجید ہر تحریف وتبدیلی یا اضطراب واختراع سے پاک واحد کتاب ہے جس کا تقابل دنیا کی کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔چنانچہ یہ دعویٰ برمحل ہوگا کہ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس کی نص کو اضطراب اورعدمِ ثبات پیش نہیں آیا اورباقی تمام کتب تحریفات کا شکار ہوئی ہیں اور اس حقیقت کے دونوں پہلوؤں کے دلائل مختصر انداز سے تحریر کر دئیے گئے ہیں ۔ قرآن کے متعدد متون اور عدم وحدت گولڈزیہر اپنی کتاب میں مختلف قراءات پر تنقید اور ان کو قرآنی متن میں سبب ِاضطراب قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ مختلف قراءات دراصل قرآن کے متعدد متون ہیں اور تاریخِ اسلامی کے کسی دور میں نصِ واحد کے ساتھ قرآن منظرِعام پر نہیں آسکاماسوا چند اقدامات کے جن کا اثر مستقل نہیں رہا۔ اس ضمن میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے کارنامہ کو نصِ قرآنی کی وحدت کی طرف اہم قدم قراردیتا ہے ،لکھتاہے: ’’وفی جمیع الشوط القدیم للتاریخ الإسلامی لم یحرز المیل إلی التوحید العقدی للنص إلا انتصارات خفیفۃ‘‘(۳۸) اس شبہ کاحاصل دوچیزیں ہیں :