کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 553
امام قرافی رحمہ اللہ نے نصاریٰ کے اس زعم کے جواب میں کافی طویل بحث کی ہے جس میں انہوں نے انجیل اورقرآنی آیات کے درمیان فروق کوواضح کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ قراءاتِ مختلفہ کی اِجازت کا پس منظر قبائل ِعرب کی مختلف لغات تھیں ،کوئی امالہ کرتا تو کوئیتفخیم،کسی کی لغت میں مدہے کسی میں قصر،کسی کے نزدیک حروف میں جہر ہے توکسی کے نزدیک اخفاء ۔اگر سب کو ایک ہی لغت کا مکلف قرار دیاجاتا تو ان کو مشقت اٹھانی پڑتی ،اس مشقت کو دور کرنے کیلئے قراءات نازل ہوئیں اور یہ سب کی سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر طریقہ سے مروی ہیں ۔سو ہمیں ان تمام قراءات پر اعتماد ہے کہ یہ من جانب اللہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلی ہوئی ہیں ۔اس کے برعکس عیسائی اپنی اناجیل کے مصنفین کو عادل راویوں کے ذریعہ ثابت کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔اس لحاظ سے عالمِ عیسائیت کے پاس انجیل کے کسی حرف کے بارے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اللہ کاکلام ہے لہٰذا انجیل کے حاملین ، مسلمانوں کے قرآن کے اصول وقواعد کا اپنی کتاب پر اطلاق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔(۲۵)
غرضیکہ اختلافِ قراءات ،اضطراب اورعدمِ ثبات کے قبیل سے نہیں بلکہ یہ سب قراءات ہمیں یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریقِ تواتر وصول ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر قراءت قرآن ہے۔لہٰذا گولڈزیہر کا یہ شبہ کسی طرح کی عقلی ونقلی دلیل سے قطعاً عاری ہے اور اگر یہ قرآن کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا، لیکن چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اختلافات سے پاک ہے۔ تاہم اختلافِ قراءات کی نوعیت سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔
قراءات کا اختلاف اس اختلاف کے قبیل سے نہیں جس میں تضاد یاتناقض پایا جاتا ہے بلکہ یہ اختلاف،تغایر اورتنوع کاہے جو قرآنی اعجاز کی علامت ہے ۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ(م۲۷۶ھ)اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’الاختلاف نوعان: اختلاف تغایر،واختلاف تضاد فاختلاف التضاد لایجوز،ولیست واجدہ بحمد اللّٰہ فی شئ من القرآن الا فی الامر والنہی من الناسخ والمنسوخ واختلاف التغایر جائز‘‘(۲۶)
تغیر وتنوع کا یہ اختلاف قرآنی قراءات میں موجود ہے اور ہر قراءت ایک مستقل آیت کے حکم میں ہے یقیناً یہ اختلاف’ایجاز‘ کو واضح کرتاہے۔قرآن کا سارا مزاج ارشادوتعلیم کے اسی راستہ پر چلتا ہے۔(۲۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ولا نزاع بین المسلمین أن الحروف السبعۃ التی أنزل القرآن علیہا لا تتضمن تناقض المعنی وتضادہ، بل قد یکون معناہا متفقاً أو متقارباً،کما قال عبد اللّٰہ ابن مسعود: إنما ہو کقول أحدکم: اقبل، وھلم وتعال‘‘(۲۸)
قراءات کے مابین اختلاف کی ممکنہ صورتیں
قراءات کے مابین اختلاف تین حال سے خالی نہیں ہوتا:
۱۔ لفظ مختلف ہوں اور معنی متحد۔
۲۔ لفظ اورمعنی دونوں مختلف ہوں ، لیکن تضاد کے بغیر ایک مفہوم میں جمع ہوں ۔
۳۔ لفظ اورمعنی مختلف ہوں ،ایک شے میں اجتماع بھی ممکن نہ ہو،لیکن ایک دوسری وجہ سے تضاد کے بغیر جمع ہوجائیں ۔