کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 552
ہم اس شبہ کا جواب دینے سے قبل یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اشکالات ملحدین بہت پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں اور اہلِ علم ان کا بڑی شدومد سے جواب بھی دے چکے ہیں ۔نصِ قرآنی کی عدمِ توثیق کے حوالہ سے بنیادی طور پر ابن قتیبہ(م۲۷۶ھ)نے متفرق بنیادی شبہات کا اصولی رد کردیا ہے اور اس اعتراض پر تفصیلی کلام کیا ہے۔(۱۹)
ہمارے خیال میں مستشرق موصوف کا یہ دعویٰ دولحاظ سے بڑاتعجب خیز ہے:
۱۔ گولڈزیہر نے سابقہ شریعتوں کی کتب کو ان کی اصلی نصوص میں نہیں دیکھا توکیسے حکم لگا سکتا ہے کہ ان میں قرآن کی طرح متعدد قراءات ووجوہ نہیں تھیں ۔
۲۔ جبکہ اسی باب میں گولڈزیہر تلمود،تورات کے ایک ہی وقت میں کثیر زبانوں میں نازل ہونے کا قول اختیار کرتا ہے۔(۲۰)
غرض گولڈ زیہر کا یہ اعتراض تاریخی اور عقلی ہر دو اعتبار سے باطل ہے جس پر دلائل پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نصِ قرآنی کو کسی قسم کا کوئی اضطراب یا عدمِ ثبات پیش نہیں آیا،کیونکہ اِضطراب اور عدمِ ثبات کا مطلب یہ ہے کہ کسی نص کو مختلف وجوہ اورمتعدد صورتوں پر اس طور پڑھا جائے کہ ان صورتوں کے مابین معنی اورمراد ایک دوسرے کے منافی اورمعارض ہوں یا ان کا ہدف ومقصود بالکل مختلف چیزیں ہوں اور وہ مفہوم ایسا ہو کہ روایات سے اس کا ثبوت بھی نہ ہو،لیکن اگر نص میں وارد ہونے والی مختلف صورتیں متواتر روایات پر مبنی ہوں اورمعنی میں بھی تضاد واقع نہ ہوتو اس کو اضطراب یا عدمِ ثبات نہیں کہا جاتا۔جبکہ قرآن میں موجود وجوہ اورصورتیں ہر قسم کے تناقض سے پاک ہیں اورنہ ہی ان کے معانی میں تعارض وتضاد ہے بلکہ وہ تمام صورتیں ایک دوسرے کو ظاہراورثابت کرتی ہیں۔(۲۱)
قرآن کی معتمد قراءات ،بسا اوقات، ایک ہی نص میں مختلف ہوتی ہیں ، لیکن ان سب کی نسبت چونکہ مصدرِ اصلی(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف ہوتی ہے لہٰذا وہ تمام صورتیں بھی قرآن ہیں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ جس میں سہولت ہو وہی اختیار کرلو۔(۲۲)
بعض عیسائیوں نے غالباً اپنی کتاب میں بے شمار تحریفات اور انجیل کے مختلف نسخوں میں اختلافات کو قرآنی قراءات کی طرح قراردیتے ہوئے یہ کہا کہ :
إننا مختلفون فی قراءۃ کتابنا فبعضنا
یزید حروفا وبعضنا یسقطہا(۲۳)
اس کے جواب میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ(م۴۵۶ھ)نے قرآنی قراءات کے اختلاف کی نوعیت کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’فلیس ہذا اختلافا،بل ہو اتفاق منا صحیح؛ لان تلک الحروف وتلک القراءات کلہا مبلغ بنقل الکواف إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنہا نزلت کلہا علیہ؛ فأی تلک القراءات قرآنا فہی صحیحۃ وہی محصورۃ کلہا مضبوطۃ معلومۃ لازیادۃ فیہا ولا نقص؛ فبطل التعلق بہذا الفصل واللّٰہ الحمد‘‘(۲۴)