کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 550
گولڈزیہر نے جرمن،انگریزی اورفرانسیسی زبانوں میں کتب تصنیف کیں جن کا تعلق اسلامی فرقوں کی تاریخ، فقہ، عربی ادب اورعلومِ قرآنیہ سے تھا۔(۳)اس نے اپنی زندگی کے کئی سال اِسلامی موضوعات کی تحقیق و تفتیش میں گذارے اور متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا اورمختصر عرصہ میں اس کی تالیفات وتعلیقات اورابحاث ومقالات کی اچھی خاصی فہرست منظرِ عام پر آگئی۔(۴) مذاہب التفسیر الاسلامی‘کتاب اس کے ترکہ میں بہت زیادہ اہمیت اورشہرت کی حامل ہے اوربلا شک وشبہ یہ کتاب مستشرقین کے لیے علمی سرمایہ ہے ،اس کتاب میں اسلام کے مبادیات اورقرآنی علوم پر جس طرز اوراُسلوب سے بحث کی گئی ہے وہ مستشرقین کے نزدیک نہایت بلند مرتبہ کا م ہے۔(۵) گولڈزیہر کے نظریات میں بسا اوقات اسلامی مصادر اور اس کی تعلیمات کے حوالہ سے پوشیدہ روّیوں کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کونہ صرف مسلم علماء بلکہ خود مستشرقین نے بھی اعتراف کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔چنانچہ پروفیسر برنارڈلیوس نے گولڈزیہر کی کی کتاب" Introduction to Islamic Theology" کے حالیہ انگریزی ترجمہ مطبوعہ۱۹۷۹ء کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’گولڈزیہرکو خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی کتابوں کے قاری مسلمان بھی ہوں گے،اسلئے کہ یہ لوگ اپنا مخاطب مغرب کے قارئین کو ہی بناتے تھے۔ چنانچہ اس عہد کے دوسرے مصنفین کی طرح گولڈزیہر بھی قرآن کو پیغمبرِ اسلام کی تصنیف کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک ایسا کہنا اسلام کی سخت تنقیص ہے،علاوہ ازیں اسلام پر لکھنے والے تمام مغربی مصنفین کی طرح گولڈزیہر بھی قرآن وحدیث میں عہدِ جاہلیت کے بعض اجنبی اثرات پر بحث کرتا ہے۔ یہ موضوع بھی حساس مسلمانوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے‘‘۔(۶) ڈاکٹر مصطفی السباعی کے نزدیک گولڈزیہر اپنی علمی بددیانتی ،عداوت اورخطرات کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں ، قرآن مجید اور علمِ حدیث کے موضوع پر خصوصیت سے اس کا قلم پھیلا ہے اور متعدد شبہات قائم کیے ہیں جو بالکلیہ اِستشراقی فکر کی پیداوار ہیں ۔(۷)گولڈزیہر ’دائرۃ المعارف الاسلامیہ‘کے محررین میں سے ایک ہے۔قرآن پاک کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دیتا ہے اوراسلام کو مفتریات کا مجموعہ۔(۸) قرآن مجید کی قراءات ،تفسیر اور تفسیر کے مختلف مناہج واَسالیب کے حوالہ سے گولڈزیہر کی مشہور کتاب کا عربی ترجمہ’’مذاہب التفسیر الاسلامی‘‘کے نام سے قاہرہ یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر عبدالحلیم النجار نے کیا ہے یہ ترجمہ پہلی مرتبہ۱۹۵۵ء میں مصر سے شائع ہوکر اربابِ علم وادب میں بہت مقبول ہوا۔ اگرچہ اسلامی موضوعات میں تحقیق کے دوران قراءاتِ قرآنیہ براہِ راست اورمستقل طور پر گولڈ زیہرکا موضوع نہیں رہا تاہم’مذاہب التفسیر الاسلامی‘میں خاص طور پر پہلے باب کے آغاز میں ۷۰ صفحات، قرآنی متن میں اِضطراب اورنقص ثابت کرنے کے لیے حدیث سبعۂ احرف کی اِستنادی حیثیت اورقراءات کی حجیت وقطعیت پر بہت سے اعتراضات وشبہات پر مشتمل ہیں ۔ راقم کے خیال میں اگر نصِ قرآنی کی عدمِ توثیق کے متعلق مستشرقین کی کوششوں کا جائزہ لیاجائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ گولڈزیہر کے تحریر کردہ یہ صفحات بعد میں آنے والے مستشرقین کے لیے بنیادی فکر فراہم کرنے میں مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔