کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 549
ہدفِ تنقید بنانے کیلئے قراءات قرآنیہ کو دو وجوہ کی بنیاد پر موضوع بحث بنایا ۔ امر اوّل قراءات کا قرآن سے بڑا مضبوط تعلق ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا گیا۔ جب کہ قراءات ، وحیٔ قرآنی کے الفاظ میں تغایر کا نام ہے، مثلاً قرآن میں ارشاد ہے:﴿إنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾یہ ایک قراءت ہے اور اس کی دوسری قرا ء ت ﴿ ان جاء کم فاسق بنباء فتثبتوا ﴾ ہے دونوں میں تغایر کے باوجود دونوں قرا ء تیں قرآن ہیں ۔ مستشرقین ذکر کردہ حقیقت کو ایک منفی طرزِ فکر کے جلو میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی رو سے ان کے مطابق قرآنی متن میں عہد بہ عہد تبدیلی واقع ہوتی رہی نیز یہ کہ قرآن مختلف شکلیں(Versions) بدلتا رہا ہے ۔ ان بے سروپا آراء وافکارکے ذریعے استشراقی حلقے مسلم اُمت کا کتاب اللہ سے رشتہ کمزور کرنے کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اَمر ثانی قراءات کا موضوع ایک خاص موضوع ہے، دینیاتی علوم کے جاننے والے بھی بہت کم اس سے واقف ہیں ، اس موضوع کے بارے میں دیارِ اسلامیہ میں عمومی طور پر کم شناسائی پائی جاتی ہے، مسلمانوں میں اس فن کی تخصیص اور اس میں بحث و تحقیق کا رجحان نسبتاً کم رہا ہے، اس صورتحال میں مستشرقین نے اس فن میں مطالعہ و تحقیق اور غور وخوض کو اپنے لئے آسان سمجھا اور سائنٹفک طرزِ تحقیق کے نام پر قرآن کریم میں تصحیف و تحریف کا دروازہ کھولا۔ مستشرقین مختلف مصاحف قدیمہ میں وارد تفسیری روایات ، شاذہ قراءات اور ذاتی و نجی مصاحف کی بناء پر ان میں موجود رسم عثمانی کے برعکس رسم قیاسی و اِملائی کو بھی قرآن میں تحریف کا ایک اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ مصاحف قدیمہ میں رسم اور قراءات کی تبدیلیوں کواکثر مستشرقین قرآنی نص میں ارتقاء ات کا نام دیتے ہیں ،بیسویں صدی عیسوی میں جن مستشرقین نے خصوصیت سے متن قرآنی میں ارتقاء ات کا نظریہ قائم کیا ہے ان میں گولڈزیہر(Goldziher) ،الفونسمنگانا(Alphonse Mingana) ، آرتھرجیفری (Arthur Jeffery) اور ڈاکٹر جی ۔آر پیوئن(Dr.G.R.Puin) قابلِ ذکر ہیں ، زیر نظر مقالہ میں ہم قرآنی نص کے بارے میں ان کے افکار و آراء کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔ اجناس گولڈ زیہراور نظریہ ارتقاء ات قرآنیہ اجناس گولڈ زیہر(م۱۹۲۱ء)مستشرقین کے اس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جس نے اسلامی شریعت اور اس کے بنیادی مصادر کو اپنی تنقید کا خصوصی مرکز بنایا ہے۔ بوڈاپسٹ(Budapest) ،برلین(Berlin) اورلائیڈن(Leipzig) کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتا رہا بعد ازاں شوقِ علم اس کو شام کے مشہور عالم شیخ طاہر الجزائری کی پاس لے گیااوران کی صحبت میں کافی عرصہ گذارا، اس کے بعد فلسطین اورپھر مصر منتقل ہواجہاں جامعہ ازہر کے علماء سے استفادہ کیا۔(۱)واضح رہے کہ جامعہ ازہر قاہرہ میں کسی غیر مسلم کا داخلہ قانوناً ممنوع تھالیکن گولڈزیہر نے خصوصی اجازت حاصل کرکے اس میں داخلہ لے لیا اوربحیثیت طالب علم وہاں پڑھنا شروع کیا۔(۲)