کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 547
اور پھر ص۱۸ پر لکھتے ہیں : ’’موجودہ دور کے اہل عرب کے تلفظ(ضاد) سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل عرب کا تلفظ بجائے خود صحیح نہیں ۔‘‘ قاری محمد شریف رحمہ اللہ توضیحات مرضیہ ص۶۶پر لکھتے ہیں کہ ’’اب اختلاط عجم سے بڑا انقلاب اور بالخصوص اس حرف(ضاد)کے تلفظ میں تو بہت ہی کوتاہی ہو رہی ہے جیسا کہ ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ موجودہ قراء عرب کی تلاوت سن کر اس بات کاپتہ چلتا ہے اور ایک ضاد ہی کیا اب تو اور بھی بہت سی فاش غلطیاں ان سے سننے میں آتی ہیں ۔ لہٰذا اب معیار صحت صرف علماء محققین کا کلام اور ان کا تلفظ ہی بن سکتا ہے عام قراء عرب کانہیں ۔‘‘ ۲۳۔ قراء کرام کو سکون اور متانت کے ساتھ تلاوت کرنا چاہئے غیر ضروری حرکات سے اجتناب کرناچاہیے آج کل ایک اور رسم بھی شروع ہوچکی ہے کہ آیات کو پڑھتے ہوئے ہاتھوں کے اِشاروں سے اس کی ترجمانی کی جاتی ہے یاجب قاری صاحب لمبا سانس لیتے ہیں تو سامعین ہاتھ اٹھااٹھا کر، کھڑے ہوکر اور نعرے لگا کر داد دیتے ہیں تو قاری صاحب ہاتھ کے اشارہ سے ان کاشکریہ اداکرتے ہیں کبھی زبان سے، کبھی ہاتھ کو سینے پر یا سر پر رکھ کر۔ اسی طرح دوران تلاوت کبھی پانی مانگا جاتاہے اور کبھی الفاظ(غیر قرآن) سے ان کا شکریہ ادا کیا جاتاہے یا اس طرح کی کوئی بات کی جاتی ہے جس سے قطع لازم آجاتا ہے اور دوبارہ تلاوت کے لیے تعوذ پڑھنا چاہئے مگر نہیں پڑھا جاتا یابعض دفعہ سامعین کی جانب سے پڑھی گئی آیت کو دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی جاتی ہے اور قاری صاحب بھی اس پر عمل کرتے ہیں گویا کہ جو باتیں پہلے مشاعرے یا قوالی کے دوران دیکھنے میں آتی تھیں وہ دھیرے دھیرے محفل قراءت کے دوران بھی دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ ۲۴۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے ہمیں ترتیل کا حکم فرمایا ہے اس میں تجوید اور وقف دو ہی چیزیں ہیں ان پر تو سختی سے عمل ہونا چاہئے اور خوش آوازی کو امر زائد کے درجہ میں رکھ کر اسے تابع تجوید بنانا چاہئے اور سانس کو تجوید میں شامل نہ کرنا چاہئے۔ گو آج کل اس کی بہت ’ڈیمانڈ‘ہے۔ سامعین بھی گھڑی پر نظر رکھتے ہیں اور اسے اچھاقاری سمجھتے ہیں جو پڑھتے ہوئے لمباسانس لے اور قاری صاحب بھی اس ’ڈیمانڈ‘ کو پورا کرنے کے لیے کشادگی سانس کے لیے دوائی کا سہارا لیتے ہیں ۔یہ ساری چیزیں عیوب تلاوت ہیں ان سے سمِ قاتل کی طرح پرہیز کرناچاہئے۔ غرضیکہ ترتیل(تجوید و وقف) جواصل ہے اسے اصل کے درجہ میں رکھا جائے خوش آوازی اور سانس کو امر زائد مستحسن کے درجہ میں رکھاجائے اور عیوب تلاوت کو اپنی جگہ رکھا جائے تو یہ عین عدل ہوگا بصورت دیگر وضع الشيء في غیر محلہ کے تحت ہم سے بڑا ظالم کون ہوگا؟ اُمید ہے کہ مندرجہ بالا گذارشات کو ریا، عقیدت، شہرت، خود غرضی اور طمع و لالچ کی عینک اتار کر خلوص اور چشم فن(تجوید)سے دیکھا جائے گا ۔اللہ جل شانہ‘ ہمیں محفل قراءت میں صحیح معنوں میں تلاوت و آداب تلاوت کی توفیق عنایت فرمائیں ۔ آمین ثم آمین! مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں