کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 546
عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وغیرہ سے افتتاح تلاوت کرناکہ مواضع اولین میں سامعین کو ضمائر کے مرجع کی تلاش اور فکر رہے گی اور موضع ثالث میں ذلک کا مشار الیہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘ مدرسہ تجوید القرآن لاہورکا سالانہ جلسہ تھا ایک نوجوان خوش گلوقاری نے آل عمران میں ﴿وَامْرَأتِیْ عَاقِرٌ قَالَ کَذَلِکَ اللّٰہ ﴾پڑھتے ہوئے لفظ ’اللہ‘پر وقف کیا۔ تلاوت ختم ہوئی تو حضرت قاری رحمہ اللہ نے قاری کو تنبیہ کی اور فرمایا تمہارے اس بے موقعہ وقف سے تلاوت کا سارا لطف جاتارہا، کیونکہ وَامْرَأتِیْ عَاقِرٌ کے جواب میں قَالَ کَذَلِکَ اللّٰہ مطلب ہوا کہ اگر بیوی عاقر ہے تو کوئی بات نہیں نعوذ باللّٰہ ، اللہ بھی ایسا ہی ہے۔ [سوانح امام القراء ص۱۰۲] ۲۱۔ قراء کرام کو اپنے اسلاف کے طریقے پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے جب ہم کتابیں ان کی پڑھاتے ہیں اورسند میں ان کا نام واسطے کے طور پر لکھتے ہیں تو ان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہمیں کیوں عار ہے؟ یا تو ان کی کتابیں پڑھاناچھوڑ دیں اور نیا نظام تعلیم مرتب کریں جس میں نئی ایجادات ہی کو تجوید کے طور پر پڑھائیں اور سند کے واسطے میں ان کے نام ہٹا دیں اورنعرہ لگا دیں کہ ’’نہ تو میرا استاد نہ میں تیرا شاگرد‘‘ پھر تو ٹھیک بصورت ِ دیگر ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے شاگردوں کو جو کتب تجوید کا سبق پڑھاتے ہیں اس میں اور اپنی قراءت میں مطابقت پیداکریں ۔ ۲۲۔ عرب قراء کی نقل کرتے ہوئے ہمیں عقل سے کام لیناچاہئے، کیونکہ نقل کیلئے عقل چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ معیارِ صحت صرف محققین قراء کا کلام اور تلفظ ہی بن سکتا ہے عام قراء عرب کا نہیں ،کیونکہ انکے تلفظ میں عجم کے اختلاط کی وجہ سے خاصی تبدیلی آچکی ہے مثلاً ج کو گ پڑھنا، ث کو ت پڑھنا، تکو تھ پڑھنا، ک کو کھ پڑھنا،ضکو د پڑھنا ان میں عام ہوچکا ہے اور گ ، تھ اور کھ عجمی حروف ہیں نہ کہ عربی۔ استادیم حضرت قاری تقی الاسلام صاحب مدظلہ، سوانح امام القراء میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ(قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے) فرمایا کہ عرب تجوید کی بہت غلطیاں کرنے لگے ہیں اور تکلف و بناوٹ کرتے ہیں مجھے ان میں کام کرناچاہیے مگر حضرت کا اسی سال وصال ہوگیا ارادہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔ مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مصری قاری صاحب کے متعلق امام القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت ان کی تلاوت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے کچھ تامل کے بعد فرمایا : ’’بلاشک آواز اور سانس کے بادشاہ ہیں ، لیکن ان کی تلاوت میں بے شمار فنی تسامحات موجود ہیں ۔‘‘[سوانح إمام القراء ص۳۴] حضرت قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تعلیقات مالکیہ ص۲۰ پر تحریرفرماتے ہیں کہ: ’’آج کل اختلاط عجم سے بڑا انقلاب اور تغیر عام تلفظ میں ہوگیا ہے جیسا کہ تجربہ شاہد ہے۔‘‘ حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تیسیر التجویدکے حاشیہ ص۱۳ پر لکھتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ اہل مصر و عرب کے بہت سے حرفوں کی اَدانہایت عمدہ اور قابل رشک ہوتی ہے مگر بکثرت امالۂ کبریٰ و صغریٰ میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ کبریٰ میں الف کو بالکل یاء سے بدل دیتے ہیں اور صغریٰ میں اس قدر جھکاؤ ہوتا ہے کہ وہ صاف امالۂ کبریٰ معلوم ہوتا ہے۔‘‘