کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 545
حرکت کرنا یا منہ ٹیڑھا ہونا یا چہرہ سے گرانی یا پریشانی کا ظاہر ہونا جلد جلد پلکوں کا بند ہونا یا ناک کا پھولنا یا پیشانی پر شکن پڑنا وغیرہ۔ غرض یہ کہ ان سب تکلفات سے بچتے ہوئے مکمل طور پر لطافت کے ساتھ اَدائیگی حروف ہونا چاہئے۔‘‘ اسی امر کی طرف علامہ جزری رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔ مکملا من غیر ما تکلف باللطف فی النطق بلا تعسف حضرت مولانا سید حامد میاں رحمہ اللہ ’سوانح امام القراء‘ ص۱۳۲ میں لکھتے ہیں کہ آپ کو(قاری عبدالمالک رحمہ اللہ ) اس چیز سے سخت کراہت تھی کہ تلاوت کے وقت طالب علم کسی قسم کا منہ بنائے یاپیشانی پر بل ڈالے ان کی ابتدائی تربیت ہی میں ان عادتوں کی بھی اِصلاح کردی جاتی تھی اور جب وہ پڑھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ بے تکلف پڑھ رہے ہیں ۔ ۱۹۔ ایک غلطی جو عام ہورہی ہے وہ یہ کہ ک اور ت میں ہا کی آواز پیدا کی جارہی ہے جس سے ک، کھ اورت ، تھ ہوجاتا ہے اور یہ دونوں حروف غیر عربی ہوجاتے ہیں اور لحن جلی کی وجہ سے پڑھنے اور سننے والے دونوں گناہگار ہوتے ہیں ۔ قراء کرام کو اس سے بچنا چاہئے۔ شیخ العرب والعجم حضرت قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ فوائد مکیۃص۳۰ پر رقم طراز ہیں : ’’ایسا ہی سکون کامل کرنا چاہئے تاکہ مشابہ حرکت کے نہ ہوجائیں اور اس سے بچنے کی صور ت یہ ہے کہ ساکن حرف کی صوت مخرج میں بند ہوجائے اور اس کے بعد ہی دوسرا حرف نکلے اور اگر دوسرے حرف کے ظاہر ہونے سے پہلے مخرج میں جنبش ہوگئی تو لامحالہ یہ سکون حرکت کے مشابہ ہوجائے گا۔‘‘ ص ۳۱ پر لکھتے ہیں کہ کاف تاء میں جنبش ہوتی ہے اس میں ھ کی یاس یا ث کی بونہ آنی چاہئے۔ ۲۰۔ قراء کرام کو وقف و ابتداء کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ غلط وقف یا ابتداء و اعادہ کی وجہ سے معنی غیر مراد کا ایہام لازم نہ آئے۔ امام القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ وقف و ابتداء کے بارے تعلیقات مالکیہ ص ۳۹ پر تحریر فرماتے ہیں کہ ....جب امام عاصم کا مذہب معلوم ہوگیا تو اب روایت حفص میں تلاوت کرنے والوں کو اتباعاً للامام وقف اور ابتداء میں اتمام کلام بحسب المعنی کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے خصوصاً ایک قاری مقری ذمہ دار کے لیے کہ اس کاالتزام نہ کرنے اور اس کے خلاف کرنے سے یہ نقصان اور خرابی ہوگی کہ وہ طلبہ جو اس سے اَخذ کررہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ان کی نظر میں اس چیز کی اہمیت اور ضرورت نہ رہے گی اور وقف و ابتداء کے مسئلہ میں عملاً وہ شتر بے مہار کی طرح آزاد ہوجائیں گے اور اس کوتاہی کاسلسلہ آئندہ ان فارغین کے تلامذہ میں بھی جاری و ساری رہے گا جس کی تمام تر ذمہ داری قاری مقری پر عائد ہوگی۔ پھر آگے اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ ’’اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جب اعادہ اور ابتداء میں قاری مقری کو کلام کے ربط وغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے تو بوقت افتتاح تلاوت خصوصاً مجالس میں کسی ایسی جگہ سے شروع نہ کرنا چاہئے کہ سامعین کو تفہیم معنی میں کسی ماقبل کے مضمون متعلقہ کا انتظار رہے مثلاً إنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ اور لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّھُمْ فِیْھَا لَا یَسْمَعُوْنَ اور ذَلِکَ