کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 543
فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾’’اورجب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو‘‘ کے سراسر خلاف ہے ایسی گفتگو سے بچناچاہئے۔ ۱۶۔ قراء کرام کو بے تکلف پڑھنا چاہئے اور تجوید کو اصل قرار دیتے ہوئے آواز، سانس کو امر زائد مستحسن(تابع تجوید) سمجھتے ہوئے عیوب تلاوت سے پرہیز کرتے ہوئے تلاوت کرناچاہئے ،آج کل آواز ، سانس اور عیوبِ تلاوت کو اصل سمجھا جارہا ہے اور تجوید کو پس پشت ڈالا جارہا ہے حالانکہ ہمارے اسلاف کی کتب اور ان کے اپنے قول و عمل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آواز و لہجہ کی وجہ سے تجوید پر عمل نہ ہو اور لحن جلی ہوجائے تو اس کاسننا اور پڑھنا حرام ہے اور اگر لحن خفی ہو تو مکروہ ہے جیساکہ شیخ العرب والعجم حضرت قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ ’فوائد مکیہ‘ ص۴ پر لکھتے ہیں کہ: ’’خوش آوازی سے پڑھنا امر زائد مستحسن ہے اگر قواعد تجوید کے خلاف نہ ہو ورنہ مکروہ اگر لحن خفی لازم آئے اور اگر لحن جلی لازم آئے تو حرام ممنوع ہے پڑھنا اور سننادونوں کا ایک حکم ہے۔‘‘ قاری محمد شریف رحمہ اللہ توضیحات مرضیہ میں ص۱۲ پر لکھتے ہیں کہ : ’’اگر قاری کی بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی وجہ سے خود خوش آوازی ہی قواعد تجوید کے بگڑنے اور لحن کے پیدا ہونے کا سبب بن جائے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس خوش آوازی کو ممنوع اور حرام یا مکروہ قرار دیا جائے گا اور اگر سننے والے کی نیت حصول ثواب کی ہو تو سننا بھی ناجائز ہے۔‘‘ حضرت قاری صاحب معلّم التجوید ص۲۴۰ پر لکھتے ہیں کہ: ’’بعض لوگوں نے اپنی خوش آوازی اور لہجہ کے ذریعہ لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور ان کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرانے کی غرض سے خواہ مخواہ تکلف کرکے لہجہ میں طرح طرح کی چیزیں ایجاد کرلی ہیں جو بہت ہی نامناسب اور معیوب ہیں ۔‘‘ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ تیسیر التجویدص۹ پر لکھتے ہیں کہ:’’اگر ایسے لہجہ اور خوش آوازی میں محو ہوا کہ مخارج وصفات حروف کا خیال نہ رکھا اورلحن جلی لازم آگیا تو ایسا پڑھنا ناجائز ہے اور اگر لحن خفی لازم آیا تو مکروہ ہے۔‘‘ ص۱۰ پر افسوس کے طور پر لکھتے ہیں کہ:’’آج کل لوگوں نے مقصود بالذات خوش آوازی اور لہجہ کو بنا رکھا ہے اور تجوید کی بالکل رعایت نہیں کرتے حتیٰ کہ بعض معلمین کو بھی اس کا احساس نہیں ، وہ شروع ہی سے لہجہ کی مشق کرانے لگتے ہیں حالانکہ پہلے مخارج حروف اورصفات لازمہ کی تعلیم دینا امر ضروری ہے۔‘‘ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ اپنے رسالہ محافل قراءات ص ۱۶ پر لکھتے ہیں کہ: ’’خوش آوازی کی دو صورتیں ہیں ایک حروف و حرکات و صفات کے قاعدوں کے اندر رہ کر خوش آوازی کرنا یہ قرآن مجید میں ثواب ہے۔ دوسرا یہ کہ قاعدوں سے باہر کرکے کھینچ کھینچ کر حرفوں اور حرکتوں کو کئی گنا کرکے سُر پیدا کرنا یہ گانا ہے....اس(دوسری صورت ) کو گناہ کہنا درست ہوگا۔‘‘ زمانہ خیر القرون کے بعد سے آج تک بعض نام نہاد اور پیشہ ور قراء نے قراءت میں کچھ ایسی اشیاء کااضافہ کردیا ہے کہ تجوید و قراءت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ استاذ القراء حضرت قاری محمد اسماعیل الکندوی(شاہ عالمی لاہور) تفہیم التجوید ص۹۱ پر لکھتے ہیں کہ ’’جاننا چاہیے کہ زمانہ خیر القرون کے بعد بعض لوگوں نے قرآن کریم کی قراءت میں کچھ اس قسم کی اشیاء کااضافہ کیا ہے