کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 538
اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد رکوع کے لئے علیحدہ تکبیر کہتے تھے۔ اور ان میں سے بعض جب سورۃ الفاتحہ پڑھ لیتے اور نئی سورہ کا ارادہ ہوتا تو تکبیر کہہ کر بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ کی ابتداء کرتے۔ [النشر:۲/۴۲۷] نوٹ:نماز میں تکبیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ سری ہوگی یا جہری؟یا تکبیر نماز کے سری وجہری ہونے کے تابع ہے ؟ اس بارے میں کئی اَقوال ہیں ۔ [ھدایۃ القاری: ۶۱۹] امام محمد البکری رحمہ اللہ صاحب الکنز فرماتے ہیں : ’’یہ زیادہ لائق ہے کہ تکبیرکو مطلقاً سری پڑھا جائے اور رکوع سے پہلے کاسکتہ تکبیر کے بعد ہو۔‘‘ [الاتحاف: ۲/۶۴۸] اس مذہب کو فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ نے اختیار کیاہے،فرماتے ہیں : ’’احسن بات یہی ہے کہ تکبیر نماز میں سری ہو، خواہ نماز جہری ہو یا سری۔‘‘ [البدور الزاھرۃ: ۳۵۱] امام بکری رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف علامہ ابن العماد رحمہ اللہ نے نقل کیاہے کہ بین السورتین تکبیرکوجہراً پڑھا جائے۔وہ تکبیر کے جہری یا سری ہونے کو نماز وغیرہ کے ساتھ مقیدنہیں کرتے۔ اسی طرح امام ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ نے بھی شرح الکتاب میں البدر زرکشی رحمہ اللہ سے ایسے ہی نقل کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ یہی صحیح ہے۔ [الاتحاف :۲/۶۴۸] ہمارے شیخ المشائخ علامہ المرصفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میرے نزدیک تکبیر کانماز کے تابع ہونا زیادہ راجح ہے، چنانچہ جہری نماز میں جہری تکبیر اور سری میں سری تکبیر پڑھنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ [ہدایۃ القاری: ۶۱۹] فائدہ: خراسان کے امام القراء ابوالحسن علی بن احمد نیشاپوری رحمہ اللہ اپنی کتاب الارشاد فی القراءت الاربع عشرۃمیں فرماتے ہیں کہ نماز میں تکبیر کہنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ سیدنا ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی قراءت میں صرف تکبیر کے بجائے تکبیر مع تہلیل کہے، تاکہ تکبیر رکوع کی تکبیر سے ملتبس نہ ہوجائے۔ [ النشر: ۲/۴۲۶] ٭٭٭