کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 537
چند آئمہ شافعیہ یعنی سخاوی رحمہ اللہ ، جعبری رحمہ اللہ ، ابوشامہ رحمہ اللہ اور رازی رحمہ اللہ وغیرہ کے ماسویٰ دیگر شوافع کی کتب ہیں ۔ گویا ان اَئمہ کی کتب ہی میں صرف یہ بحث موجود ہے۔‘‘ [ھدایۃ القاری:۶۱۸]
امام ابن جزری رحمہ اللہ تکبیرات کے ثبوت کے حوالے سے مفصل بحث کے اختتام پر منکرین تکبیر کے بارے میں تاسف کا اظہار کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :
’’افسوس توان لوگوں پر ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ، تابعین عظام سے اس تمام بحث اور ثبوت کے باوجود بھی تکبیر کے منکر ہیں ۔‘‘ [النشر:۲/۴۲۸]
امام ابن جزری رحمہ اللہ کی مذکورہ گفتگو سے چند اہم مسائل سامنے آتے ہیں :
۱۔ تکبیر سنت ماثورہ ہے، جو نماز اور خارج نماز دونوں حالتوں میں عام ہے اور اہل مکہ و فقہائے اَمصار سے اس پر نماز ِتراویح اور قیام اللیل وغیرہ میں عمل ثابت ہے۔
۲۔ فقہی مذاہب میں سے شوافع کے نزدیک تکبیر کو نمازمیں پڑھا جاسکتا ہے، جبکہ حنفیہ اور مالکیہ سے اس بارے میں کوئی نص ثابت ہی نہیں ۔حنابلہ سے اس بارے میں تکبیر و عدم تکبیر دونوں روایات منقول ہیں ، لیکن ان کے نزدیک سیدنا ابن کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ کسی قاری کے لئے تکبیر کہنا غیر مستحب ہے۔ بعض لوگ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے لئے تکبیر کے ساتھ تہلیل کے جواز کے بھی قائل ہیں ۔
۳۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے تکبیر کے ثابت ہوجانے کے بعد انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ [ھدایۃ القاری: ۶۱۸]
علامہ احمد البناء الدمیاطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’نماز کے اندر تکبیر کا پڑھنامستحب ہے،خواہ اختتام ِقرآن کا موقع ہو یا نماز کے اندر آخری سورتوں میں سے کسی ایک سورہ کو پڑھا گیاہو، مثلاً سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کو دو رکعتوں میں پڑھا جائے تو تکبیر کہی جائے اور اس کی دلیل ووجہ واضح ہے۔ [الاتحاف :۲/۶۴۸]
علامہ احمد البناء الدمیاطی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
’’جن سے نماز میں تکبیر ثابت ہے، ان میں سے بعض کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ سورۃ الفاتحہ کی قراءت کرلیتے تو پہلے اللّٰہ اکبر کہتے، پھر بسم اللّٰہ پڑھتے اور اس کے بعد اور سورہ کو شروع کرتے۔ اس کے بالمقابل دیگر بعض کا طریقہ کاریہ تھا کہ وہ ہر سورہ کے آخر میں تکبیر کہتے، اس کے بعد رکوع کے لئے جھکتے اور رکوع کی تکبیر کہتے، حتیٰ کہ سورۃ الناس ختم کردیتے اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو سورہ فاتحہ پڑھتے اور کچھ سورۃ البقرہ کے شروع سے۔ المختصر بعض ابتدائے سورہ میں تکبیر پڑھتے اور بعض انتہائے سورہ کے لحاظ سے تکبیر کہتے۔‘‘ [الاتحاف :۲/۶۴۹]
امام جزری رحمہ اللہ النشر الکبیر میں فرماتے ہیں :
’’ہمارے بعض شیوخ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ نمازِ تراویح پڑھاتے پڑھاتے جب سورہ والضحیٰ پر پہنچتے تو رُک جاتے، پھر سورہ والضحی سے لے کر آخر تک ایک ہی رکعت میں قیام کرتے اور ہرسورۃ کے آخر میں تکبیر کہتے۔جب سورۃ الناس ختم ہوجاتی تو اس کے آخر میں تکبیر کہتے اور اس کے بعد رکوع کے لئے علیحدہ تکبیر کہتے۔اس کے بعد دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کچھ سورۃ البقرہ پڑھتے تھے۔ بقول ابن جزری رحمہ اللہ میں نے بھی کئی مرتبہ ایسے کیا، جب میں دمشق اور مصر وغیرہ میں امامت کرواتا تھا۔ جو تراویح میں تکبیر کہتے تھے، وہ ہرسورہ کے آخر میں پہلے